اسلام علیکم

محترم مہمان آپ کا
urduyahoo.blogspot.com
پر آنے کا بہت بہت شکریہ
اس بلاگ میں آپ کو اگر کوئی غلطی نظر آئے یا اس کی بہتری کے لئے اگر کوئی تجویز بھی دینا چاہیں تو ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے
اور اگر آپ کوئی تحریر شائع کروانا چاہتےہیں تو آپ ہمیں ای میل کریں
ؑEmail : jinnah332@yahoo.com



جی ہاں ونڈوز 8 میں خفیہ سٹارٹ مینیو موجود ہے

0 تبصرہ جات
آپ میں سے اکثر دوست ایسے ہونگے جنہوں نے مائیکروسافٹ کی نئی ونڈوز 8 انسٹال تو کی ہوگی لیکن چونکہ اسکا انٹرفیس ٹیبلیٹ اور دیگر ٹچ ڈیوائسز سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے ، وہ دوست اب ونڈوز کے روایتی Start Menu کی کمی بہت شدت سے محسوس کررہے ہونگے؟
windows 8 جی ہاں ونڈوز 8 میں خفیہ سٹارٹ مینیو موجود ہے
گو کہ انٹرنیٹ پر ونڈوز 8 میں سٹارٹ مینیو لانے کے بہت سے گرُ دستیاب ہیں لیکن انکا استعمال کیوں کیا جائے جب ونڈوز 8 میں سٹارٹ مینیو پہلے سے ہی موجود ہے لیکن اسے چھپایا گیا ہے۔
بس آپ کو کرنا یہ ہے کہ اپنی سکرین پر بائیں جانب نیچے رائیٹ کلک کیجئے، وہیں جہاں پہلے کبھی سٹارٹ مینیو ہوا کرتا تھا۔ لیجئے جناب سٹارٹ مینیو حاضر ہے۔گو کہ یہ روایتی مینیو کے مقابلے میں تو کافی سادہ ہے لیکن چلیں گذارہ تو ہوجائے گا نہ۔
start menu hidden جی ہاں ونڈوز 8 میں خفیہ سٹارٹ مینیو موجود ہے

بہت سے صارفین ونڈوز 8 سے واپس دوبارہ ونڈوز 7 پر اسی وجہ سے منتقل ہورہے ہیں کہ انہیں اسکا انٹرفیس پسند نہیں آیا۔ لیکن جناب اگر آپ کو سٹارٹ مینیو کی سہولت بھی مل جائے تو نئی ، جدید فیچرز سے مزین اور تیز رفتار ونڈوز 8 میں کیا برائی ہے؟
کیا آپ ونڈوز 8 استعمال کررہے ہیں؟ آپ کو اس خفیہ سٹارٹ مینیو کے بارے میں پتہ تھا؟ ونڈوز 8 میں آپ کو کیا چیز اچھی لگی ہے اور کیا بری تبصرہ کرکے ہمیں ضرور بتائیے گا۔

یس بک کی جانب سے کمپنی ملازمین کو اینڈرائیڈ فونز استعمال کرنے کی ترغیب

0 تبصرہ جات
فیس بک انتظامیہ کی جانب سے
droidfood
نامی مہم کے ذریعے کمپنی ملازمین کو اس بات کی ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ ایپل آئی فون کی بجائے اب اینڈرائیڈ سمارٹ فونز استعمال کریں۔
چونکہ شروع میں اینڈرائیڈ ، آئی او ایس کے مقابلے میں کچھ خاص نہیں تھا لہذا فیس بک نے اپنی تمام تر توجہ آئی او ایس ایپلی کیشن پررکھی، اور کمپنی ملازمین نے دھڑا دھڑ آئی فون خریدے۔ لیکن چونکہ اب فیس بک کی اینڈرائیڈ ایپلی کیشن بھی مقبولیت حاصل کرچکی ہےلہذا کمپنی یہ چاہتی ہے کہ کوئی بھی نیا ورژن ریلیز کرنے سے قبل کمپنی ملازمین اسے اچھی طرح چیک کریں اور اس میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کریں۔ پر مسئلہ یہ ہے کہ بہت کم کمپنی ملازمین اینڈرائیڈ فون کے مالک ہیں۔ جس کی وجہ سے کمپنی کو یہ مہم چلانا پڑ رہی ہے۔

فیس بک ملازمین کو اینڈرائیڈ ایپلی کیشن کے بیٹا ورژن تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور انہیں فیس بک ایپلی کیشن میں کسی خرابی کی رپورٹ کے لیے بس اپنے فون کو زور زور سے ہلانا ہوتا ہے۔ اس فیچر کو Rage Shake کا نام دیا گیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کمپنی کی یہ مہم کامیاب ہوتی ہے اور فیس بک ملازمین آئی فون کو چھوڑ کر اینڈرائیڈ پر منتقل ہوتے ہیں؟ تاکہ صارفین کو ہر قسم کی خرابی سے پاک ایپلی کیشن مہیا کی جاسکے اور انہیں پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

ایوان صدر کا تاریخ ساز کردار

0 تبصرہ جات

سپورٹسمین کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ کھیل کے میدان میںقواعد کے مطابق کھیلتاہے اور کامیابی کے لئے بھرپور محنت کرتاہے تاہم جب ہار جاتاہے تو خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی ہار کو قبول کرتا ہے اور جیتنے والی ٹیم کو اس کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتاہے یہ مبارکباد مخالف ٹیم کی جدوجہد اور کامیابی پر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شعبہ میں مقابلہ ہو تو فریقوں کو سپورٹسمین سپرٹ پیش نظر رکھنے کا مشورہ دیا جاتاہے ہمارے سیاستدانوں کو بھی الیکشن میں اسی جذبے کو اپنے مدنظر رکھنا ہوگا وفاقی وزیراطلاعات ونشریات قمر زمان کائرہ نے لاہور میں سینئر صحافیوں اور ایڈیٹروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کو الیکشن سے آئوٹ کرنے کی سوچ احمقانہ ہے حالات کی سنگینی کے باوجود الیکشن کی تاریخ کسی صورت آگے نہیں بڑھے گی شفاف انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن سے تعاون کریں گے صدر مملکت سیاسی عمل کا حصہ ہیں ان کے سیاست کرنے پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی صدر نے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیئے ہیں کیونکہ وہ کسی سے خوفزدہ نہیں انہوں نے کہا کہ آزادعدلیہ اور آزاد میڈیا کی موجودگی میں کوئی انتخابات کے التواء کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا انہوں نے میاں نواز شریف کے صدر  زرداری سے حلف لینے کے بیان کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ان کی طرف سے صدر زرداری پر شہباز شریف کو تنقید نہ کرنے کا مشورہ بھی اچھی بات ہے نواز شریف نے ماضی سے سبق سیکھ لیاہے اس لئے اب وہ جمہوریت کی بات کرتے ہیں  انہوں نے کہا کہ ایوان صدر کو غیر سیاسی کرنے کی باتیں ناقابل فہم ہیں ایوان صدر میں کوئی جج یا جرنیل نہیں بلکہ سیاسی عمل کے ذریعے منتخب ہونے والاصدر موجود ہے سیاسی لوگ جلسے نہیں کر سکتے مگرچیف جسٹس وکلاء کے جلسے کریں اور اخبارات میں ان کی سرخیاں لگیں ایسا کیوں ہے؟ماضی میں ایوان صدر سے ہمیشہ جمہوریت پر وار کیاگیا لیکن صدر زرداری نے ایوان میں بیٹھ کر سازش نہیں بلکہ مفاہمت کی ہے اگر صدر زرداری کے بجائے کوئی اورصدر ہوتا تو ملک میں جمہوریت کب کی ختم ہو چکی ہوتی وزیراطلاعات نے کہا کہ نگران حکومت کے قیام کے سلسلے میں  ایوان صدر کا کوئی کردار نہیں ہے وزیراطلاعات کی گفتگو سپورٹسمین سپرٹ کی نشاندہی کرتی ہے انہوں نے کامیابی کی صورت میں صدر زراری سے حلف لینے اور شہباز شریف کوصدر زرداری کے خلاف سخت لہجہ اختیار نہ کرنے کے حوالے سے میاں نواز شریف کے بیان کا خیر مقدم کیاہے میاں نوازشریف کے مثبت بیان پر پیپلزپارٹی اور حکومت کی طرف سے ردعمل سیاسی ماحول کو خوشگواربنانے کے سلسلے میں اہمیت کا حامل ہے وزیراطلاعات نے بجا طور پر اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ ماضی میں ایوان صدر منتخب حکومتوں کے خلاف سازشوں کا مرکز رہے یہ المیہ ہے کہ ماضی میں جو منتخب صدورآئے اپنے غیر  معمولی اختیارت کے باعث انہوں نے پارلیمانی جمہوریت کو صدارتی نظام  میں بدلنے کی کوشش کی اور پارلیمنٹ و منتخب وزیراعظم کو اپنا تابع فرمان بنانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے اور جب دیکھا کہ منتخب حکومت ان کی آمریت کا ساتھ نہیں دے رہی آمرانہ ترمیم کے ذریعے اسے ختم کر دیا آئین نے قوم کو جس پارلیمانی جمہوریت  کی خوشخبری سنائی اسے حقیقت نہیں بننے دیاگیا اگرفوجی آمروں نے آئین کو پامال کیا اور ملک میں جمہوریت قائم نہیں ہونے دی تو دوسری طرف جتنا عرصہ جمہوریت بحال رہی منتخب صدور نے آمرانہ  ترامیم کے ذریعے اپنے آپ کو طاقتور رکھا اور  پارلیمانی جمہوریت بحال نہ ہونے دی اس پس منظر میں صدر آصف علی زرداری نے اپنے تمام  اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو سونپ کر پارلیمانی نظام کو بحال کیا اور ایوان صدر کو سازشوں کے بجائے مفاہمت اور جمہوریت کے مقاصد کے تحت استعمال کیا پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ ایوان  صدر نے پارلیمانی و جمہوری آئین کا  پرچم بلند کیا بدقسمتی سے ایوان صدر کے اس تاریخ ساز کردار کو میڈیا اور اہل سیاست دونوں نے دانستہ نظرانداز کیا وزیراطلاعات نے یہ بھی واضح کر دیا کہ نگران حکومت میں ایوان صدر کا کوئی کردار نہیں ہے اور آئین کے تحت جس طرح چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کی گئی ہے اسی طرح نگران حکومت بھی قائم کی جائے گی اور مقررہ وقت پر انتخابات منعقد ہوں گے ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی موجودگی میں انتخابات کے التواء کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

موجودہ ملکی سیاسی حالات اور ملکی غیرت و حمیت

0 تبصرہ جات
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
امریکہ کے ایک سابق اٹارنی جنرل نے اعترافی بیان دیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے نہ کسی کو قتل اور نہ کسی پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اس بیان نے مجھے پھر قلم اٹھانے پر اکسایا حالانکہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا، کہا ،سنا گیا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور جمہوریت نے جس خاتون کو چھیاسی برس قید کی سزا دی ہو، اسے بے گناہ قرار دینے پر میں رمزے کلارک کو سلام پیش کرتا ہوں۔اس حق گوئی نے مجھے اپنے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی مردہ ضمیری پر فاتحہ خوانی کے بعد اس خلجان میں مبتلا کر دیا ہے کہ کیا یہ محض قوم کی ایک بیٹی کی جان و عزت کا معاملہ ہے یا ہماری قومی غیرت پر ایک سوالیہ نشان!
درخت اپنی جڑوں اور عمارتیں اپنی بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں۔ملک مخصوص جغرافیئے اور ثقافت کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں۔ لیکن کرہ ارض پر کچھ ایسے ملک بھی ہیں جو ایک نظریہ کی بنیاد پروجود میں آئے۔پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ملکوں میں ہوتا ہے۔اس کی اساس نظریہ پاکستان ہے۔ نظریہ پاکستان کی اساس دو قومی نطریہ ہے جبکہ دو قومی نظریہ کی اساس غیرت ہے۔
خلفائے راشدین کے دور میں جب اسلامی مملکت وسعت پذیر ہوئی تو ہندوستان پر فوج کشی کا معاملہ بھی زیر غور آیا لیکن جنگی حکمت عملی کے پیش نظر اسے مناسب خیال نہ کیا گیا۔ حضرت عمر فاروق کو بتایا گیا کہ سندھ کا ساحلی علاقہ بنجر ہے۔ اگر بڑا لشکر بھیجا گیا تو غذائی قلت کا شکار ہو جائے گا جبکہ چھوٹے لشکر کو ڈاکو ختم کر دیں گے۔
لیکن جب ایک مسلمان بیٹی کی عزت کا سوال آیا تو حجاج بن یوسف نے غیرت کو فوجی حکمت عملی پر ترجیح دیتے ہوئے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملے کا حکم دیا ۔ محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کرکے ہندوستان میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔
کیا یہ اساس اب بھی قائم ہے ؟
”جی نہیں۔” میرا یہ جواب شاید محب وطن پاکستا نیوں کو ناگوار گزرے۔لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی مردہ قوموں کی نشانی ہو تی ہے۔راجہ داہر کی قید میں ایک مسلمان لڑکی کا موازنہ بگرام جیل کی قیدی نمبر٦٥٠ سے کیجیئے۔اگر آپ اپنی فوجی اور قومی غیرت پر تھپڑ نہ محسوس کریں تو یہ بھی میرے مردہ قومیت کے تجزیئے کی تائید ہوگی۔
قیدی نمبر٦٥٠ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جسے ہر طرح کے تشدد اور ہر طرح کی ذلت کا نشانہ بنایا گیا۔اس ظلم کی نشاندہی ایک برطانوی صحافی نے کی ،مگر ظلم کی یہ داستان بھی لاپتہ افراد کی طرح پر اسرار طور پر گم ہوگئی۔قوم کی اس بیٹی کی ازیت اور ذلت کا ذمہ دار وہ حکمران ہیںجو” سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے تین کمسن بچون سمیت کراچی سے اغوا کرکے غیر ملکی ایجنٹوں کے حوالے کیا گیا۔
تاریخ اسلام میں اس سے بڑی بے غیرتی کی مثال تلاش کیجئے۔ شاید مل جائے ، مجھے نہیں ملی۔ غیرت کے نام پر شروع ہپونے والی محمد بن قاسم کی تحریک جسے قائداعظم نے منطقی انجام تک پہنچایا، کیا ڈاکٹر عافیہ کی عصمت کی ساتھ اپنی طبعی موت نہیں مر گئی؟اگر پاکستانی قوم کی غیرت ختم ہو گئی ہے تو نظریہ پاکستان کیسے قائم رہ سکتا ہے؟
قومی بے غیرتی کی ویسے تو کئی اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً ہمارے قبائلی علاقوں میں آئے دن ڈرون حملے! دوسرے ممالک کی طرف سے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی۔ اور ہمارے ارباب اختیار کی خاموشی!کسی غیر ملک کا اپنے فوجی اور ہیلی کاپٹر لے کر ہمارے ملک میںگھنٹوں آپریشن کرکے پنی مرضی کے نتائج  حاصل کرنا اور ہمیں کانوں کان خبر نہ ہونا، وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان اگر اسلام کے نام پر بنا ہے تو اس کے حکمرانوں میں اسلامی اقدار کی جھلک تونظر آنی چاہیئے۔
کچھ ماہ قبل وزیراعلیٰ سندھ کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ کراچی جیسے دوکروڑ آبادی والے شہر میں روزانہ چند لوگوں کا قتل کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے۔جبکہ حضرت عمر تو فرات کے کنارے کسی کتے کے بھوکے رہنے کو بھی چھوٹا واقعہ قرار نہیں دیتے۔
اس ملک پاکستان کو آپ درخت سے تشبیہہ دیں یا عمارت سے ، یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اس کی جڑیں بنیادیں اس حد تک کمزور ہو چکی ہیں کہ اس کا قائم رہنا کسی معجزے سے کم نہ ہوگا ۔اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی رحمت سے میرے اندازوں کوغلط فرمائے۔

پاکستان کے بنیادی مسائل اور ان کا حل

0 تبصرہ جات

پاکستان کو گزشتہ کئی سالوں سے کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اس میں سے کچھ مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اور کچھ مسائل بیرون ممالک کی وجہ سے ہیں۔موجودہ حالات میں پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی کا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ان دہشت گردی کے واقعات میں ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔دہشت گردی نے بچوں سے اپنے والدیں چھین لئے۔کئی ماؤں کے سامنے ان کے لختِ جگر نے اپنی جان گنوا دی مگر مائیں کچھ نہ کر سکیں۔کبھی سکول جاتے ہوئے کسی وین کو اڑا دیا جاتا ہے تو کبھی دفتر جاتے ہوئے غریب آدمی کی جان لے لی جاتی ہے۔ان حالات میں ایک عام آدمی کیا کر سکتا ہے؟؟؟ جب کوئی انسان گھر سے باہر نکلتا ہے اس کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ وہ گھر واپس آئے گا بھی یا نہیںاس کا کیا یہی ہے کہ کیا لوگ گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیں؟؟ ؟ کیا حکومت دہشت گردی روکنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے؟؟ ہم کب تک دہشت گردی کی آڑ میں اپنے لوگوں کی جانیں ضائع ہوتے دیکھتے رہیں گے؟؟؟ ہمیں ان سولات کا جوب سوچنا ہو گا۔ہمیں ایک آزاد اور خود مختار پاکستا ن بنانے کا ارادہ کرنا ہو گا۔ایک ایسا پاکستان جس میں امن ہی امن ہو۔ وہ پاکستان جس کا خواب علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا۔ وہ پاکستان جس کو قائداعظم محمد علی جناح نے صرف اس وجہ سے بنایا تھا تا کہ لوگ اپنی زندگی سکون سے گزار سکیں۔مگر اس وقت کے حالات دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہمارا ملک الٹی سمت جا رہا ہے۔دہشت گردی کے باعث سالانہ اربوں ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہزاروں جانیں ضائع ہو رہی ہیں مگر اس کے باوجود ہماری حکومت خاموش تماشائی بن کے بیٹھی ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی ختم کرنے کے کئی دعوے ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود مٹھی بھردہشت گرد عناصر نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔دہشت گردی سمیت دیگر تمام مسائل کا حل موجود ہے مگر ہماری حکومت کی سوچ دہشت گردی ختم کرنا نہیں بلکہ پانچ سال کے لئے حکومت بنانا ہے۔ اسی سوچ نے پورے ملک کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔حکومت کو دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنے ہوں گے اور مختلف خفیہ ٹیمیں تشکیل دے کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہو گا۔ تب ہی ہم دہشت گردی سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔دہشت گردی کے علاوہ ایک اہم مسئلہ کرپشن کا ہے۔کرپشن نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں جس پر کرپشن کا الزام نہ لگا ہو۔ مگر اس کے باوجود کوئی بھی سیاستدان، بیورو کریٹ اور اس طرح کے دیگر افراد نہ صرف کرپشن کرتے ہیں بلکہ کرپشن کرنے کے بعد مزید اعلی منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔موجودہ وزیراعظم پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات موجود ہیں مگر اس کے باوجود اس اہم منصب پر موجود ہیں۔جمہوری ممالک میں یہ رواج ہے کہ اگر کسی وزیر پر کوئی بھی کرپشن کا کیس دائر ہوتا ہے تو وہ اپنی وزارت سے استعفی دے دیتا ہے مگر ہمارے ملک کی تاریخ میں کوئی ایسا لیڈر نہیں جس نے اپنے جرم قبول کر کے اپنا عہدہ چھوڑا ہو۔ پاکستان میں ریلوے تباہ ہو چکی ہے مگر اس کا وزیر صرف اس وجہ سے تبدیل نہیں کیا جا رہا کیوںکہ اگر وزیر کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تو اس کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اس مسئلے کے حل کے لئے حکومت کو ایک کمیٹی تشکیل دینی ہو گی اور اس کو پورے اختیارات دئے جائیں جس کے ذریعے کرپشن کرنے والے افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تا کہ کسی شخص کی جرأت نہ ہو کہ کرپشن کر سکے۔پاکستان میں مہنگائی کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے۔پاکستان میں پٹرول کی قیمت سنچری عبور کر چکی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ سی این جی کی قیمت بھی بہت جلد سنچری عبور کر جائے۔ اس ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا اثر مہنگائی پر ڈائریکٹ پڑتا ہے۔جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اگلے روز سے مہنگائی میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔سال میں صرف ایک دفعہ تنخواہ میں صرف دس سے بیس فیصد تک اضافہ کیا جاتا ہے مگر مہنگائی کی شرح کو نہیں دیکھا جاتا۔میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ان کے دور میں ایک تولہ سونا کی جتنی قیمت ہوتی تھی ۔ کم سے کم تنخواہ بھی اتنی ہی دی جاتی تھی مگر آج سونے کی قیمت ساٹھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے مگر ایک عام آدمی کی اجرت دس ہزار ہے۔دس ہزار میں ایک غریب جس طرح گزارہ کرتا ہے یہ اس آدمی سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ بیروزگاری کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اگر اس کو فوری طور پر کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے روزگار مل سکے ۔ اس کے علاوہ حکومت کو کم سے کم تنخواہ ایک تولہ سونا کے برابر رکھ دینی چاہئیے تا کہ مہنگائی میں جتنا اضافہ ہو تنخواہ بھی اسی شرح سے بڑھتی رہے اور اس کا اثرایک عام شخص پر نہ پڑے۔اس کے علاوہ لوڈ شیڈنگ سمیت کئی ایسے مسائل موجود ہیں جن کے حل کے لئے حکومت کو صرف اچھے ذہنوں والے افراد دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک شخص کے پاس اقتدار ہو اور اس کے ساتھ ایسے ذہن ہوں جو اپنے ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر ملکی مسائل کو ترجیح دیں۔ کیوں کہ ان مسائل کا حل تو موجود ہے مگر موجودہ حکومت میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آرہا جو ان مسائل کو ختم کر سکے۔

نصیرالدین شاہ ایک ہفتے کے دورے پر لاہور پہنچ گئے

0 تبصرہ جات

نصیرالدین شاہ ایک ہفتے کے دورے پر لاہور پہنچ گئے


بھارتی اداکار نصيرالدين شاہ ایک ہفتے کے دورے پر لاہور پہنچ گئے، وہ مختلف ڈراموں کی عکس بندی میں حصہ لیں گے۔

دہلی سے لاہور آمد کے موقع پر علامہ اقبال ايئرپورٹ پر اداکار نصير الدين شاہ اور ان کے اہلخانہ کا پرتپاک استقبال کيا گيا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے نصير الدين شاہ نے کہا کہ انہيں لاہور آکر ايسا ہی محسوس ہوتا ہے جيسے وہ اپنے گھر ميں ہوں اور وہ لاہور آتے جاتے رہتے ہيں۔ انہوں نے بتايا کہ وہ فيض فاؤنڈيشن کی دعوت پر آئے ہيں اور عصمت چغتائي کے افسانوں سے ماخوز ڈراموں ميں اداکاری کريں گے۔ نصيرالدين شاہ نے کہا کہ وہ پاکستان ميں بننے والی اپنی فلم زندہ بھاگ کے پريمئير ميں شرکت کے لئے بھی لاہور آئيں گے۔

اجے سے تنازع کا اثر کاجل سے دوستی پر بھی پڑا: شاہ رخ خان

0 تبصرہ جات

اجے سے تنازع کا اثر کاجل سے دوستی پر بھی پڑا: شاہ رخ خان

 

ممبئی :بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان نے اعتراف کیا ہے کہ فلم جب تک ہے جان کی ریلیز کے بعد اجے دیوگن کے ساتھ تنازعے کے باعث انکی اداکارہ کاجل کے ساتھ دوستی متاثر ہوئی ۔

ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سپر اسٹار نے کہا کہ اکتوبر میں انھیں دو صدمے اٹھانا پڑے۔ پہلے انڈسٹری میں انکے گرو یش راج چوپڑا کی ناگہانی موت ہوئی۔ اس کے بعد انکا اداکار اجے دیوگن کے ساتھ تنازع ہوگیا۔ شاہ رخ نے کہا کہ انکا فلموں کی ڈسٹری بیوشن سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے اجے کو انکے ساتھ اس تنازعے میں نہیں الجھنا چا ہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ اجے کے ساتھ تناز عے کے باعث انکی اداکارہ کاجل کے ساتھ 18 سالہ دوستی بھی متاثر ہوئی جس کا انھیں افسوس ہے۔

ہشتم کے سالانہ امتحان کےلئے رجسٹریشن تاریخ میں توسیع

0 تبصرہ جات

ہشتم کے سالانہ امتحان کےلئے رجسٹریشن تاریخ میں توسیع


حکومت پنجاب محکمہ تعلیم کی ہدایات کی روشنی میں پنجاب ایگزامینیشن کمیشن لاہور کے زیر اہتمام ہونے والے جماعت پنجم اور ہشتم کے سالانہ امتحان 2013ء کی رجسٹریشن کی تاریخ میں 30 نومبر تک توسیع کر دی ہے۔

پنجاب ایگزامینیشن کمیشن لاہور کے زیر اہتمام ہونے والے جماعت پنجم اور ہشتم کے امتحان کی رجسٹریشن کے لئے داخلہ فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ 10 اکتوبر مقرر کی گئی تھی لیکن اکثر امیدوار مقررہ تاریخ تک اپنے داخلہ فارم جمع نہ کروا سکے جس پر حکومت پنجاب نے ایسے تمام امیدواروں کو امتحان میں شامل کرنے کے لئے داخلہ کی تاریخ میں 30 نومبر تک توسیع کر دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو امتحان میں شرکت کا موقع فراہم کیا جاسکے۔ جماعت پنجم، ہشتم کے سالانہ امتحان 2013ء میں شرکت کرنے والے امیدواروں کی کٹ لسٹ پنجاب ایجوکیشن کمیشن لاہور کی جانب سے جاری کر دی گئی ہے جو کہ رجسٹرار محکمانہ انتخابات اور چاروں تحصیلوں کے ڈپٹی ڈی ای اوز کے دفاتر میں پہنچا دی گئی ہیں جہاں امیدوار اپنا نام، والد کا نام اور تاریخ پیدائش چیک کرسکتے ہیں اور غلطی کی صورت میں درستگی کرواسکتے ہیں جس کے بعد امیدواروں کو حتمی رولنمبر سلپس جاری کی جائے گی۔

حیدر آباد: ناکہ چھوڑ کر پولیس اہلکار لنگر لینے دوڑ پڑے

0 تبصرہ جات

حیدر آباد: ناکہ چھوڑ کر پولیس اہلکار لنگر لینے دوڑ پڑے

 

حیدرآباد میں پولیس اہلکاروں نے ناکہ چھوڑ کر نیاز حاصل کرنے کے لیے دوڑ لگا دی جبکہ پابندی کے باوجود موٹر سائیکل سوار آزادی سے آتے جاتے رہے.

کہتے ہیں بھوک لگی ہو تو چاند بھی روٹی کی طرح ہی دکھائی دیتا ہے۔ حیدرآباد میں پولیس اہلکار ناکہ لگائے چیکنگ کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک گاڑی سے لنگر تقسیم کیا جانے لگا جسے دیکھ کر پولیس اہلکاروں نے ڈیوٹی کو چھوڑا اور کھانا حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑے۔ کسی نے ایک اور کسی نے دو شاپروں میں کھانا ڈال لیا۔ پابندی کے باوجود کسی موٹر سائیکل سوار کو نہیں روکا گیا۔

چین میں بہتر سالہ بوڑھے کو ماڈل بننے کا شوق

0 تبصرہ جات

چین میں بہتر سالہ بوڑھے کو ماڈل بننے کا شوق


چین میں بہتر سالہ بوڑھے کو ماڈل بننے کا شوق چرایا ہے، اس کا چہرہ ماڈلنگ کے لیے مناسب ہو نہ ہو، البتہ ماڈل گرلز اس جیسی دبلی پتلی ضرور ہونا چاہتی ہیں۔

"لوئی کیان پنگ" ساری عمر کھیتوں میں کام کرتا رہا ہے۔ اس کی پوتی نے اپنا بوتیک کھولا تو لوئی کیان کے دل میں بھی ماڈلنگ کی خواہش جاگ اٹھی۔ ایک دن اس نے پوتی کے تیار کردہ زنانہ ملبوسات پہنے تو خود کو اچھا خاصا ماڈل محسوس کیا۔ پوتی کی حوصلہ افزائی پر اس نے باقاعدہ ماڈلنگ شروع کر دی۔ آج" لوئی کیان"کا نام نوجوان لڑکیوں کے ملبوسات کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ لوئی کا کہنا ہے اس نے ماڈل بننے کا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ عمر بھر کھیتی باڑی کرنے کے بعد بطور ماڈل شہرت پا کر لوئی خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔

جمہوریت یا خلافت

0 تبصرہ جات

جمہوریت یا خلافت



ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم مفسرِ قرآن، ترجمانِ اقبال، اور حُسنِ بیان میں لاجواب تھے۔ ان کی تحریروں اور تقریروں سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے استاذبیر بن عمر صدیقی کے دولت کدے پر مکة المکرمہ میں اکا دکا ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ صدیقی صاحب نے میرا تعارف کروایا تو وہ بڑی محبت سے پیش آئے۔ گزشتہ روز ان کے صاحبزادے اور تنظیم اسلامی کے امیر حافظ عاکف سعید کی جانب سے عشائیے اور تبادلہ¿ خیال کی دعوت وصول ہوئی تو میں نے لاہور سے باہر ہونے کے باوجود حامی بھر لی کہ میں حاضر خدمت ہوں گا۔ عشائیے پر خاکسار کے علاوہ کئی اور اصحاب علم و قلم موجود تھے۔
حافظ عاکف سعید نے اپنے تحریری خطاب میں قیام پاکستان کے پس منظر اور آزادی سے لیکر اب تک کے حالات پر جامع انداز میں روشنی ڈالی۔ انہوں نے ڈاکٹر اسرار احمد کی فکر اور ان کے تحریروں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان میں جمہوریت کا سفر ایک ناکام سفر ہے، ہمیں جمہوریت کا راستہ ترک کر کے خلافت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ان کے والد گرامی ڈاکٹر اسرار احمد نے 1957ءمیں اسی بنا پر مولانا مودودی سے اپنا راستہ جدا کر لیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں اسلامی نظام یا اسلامی انقلاب انتخاب کے ذریعے برپا نہیں ہو سکتا۔ حافظ عاکف سعید نے ڈاکٹر اسرار احمد کی چند کتب اور ہفت روزہ ”ندائے خلافت“ کا تازہ ترین شمارہ بھی عنایت فرمایا۔ اس جریدے کے مندرجات سے تنظیم الاسلامی کی فکر اور بھی واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ اس شمارے میں خلافت فورم کے ایک فکر انگیز مذاکرے کی روداد بھی شائع کی گئی ہے۔ مذاکرے کے شرکاءمیں پروفیسر غالب عطا اور ایوب بیگ مرزا شامل تھے۔ ایک سوال کے جواب میں پروفیسر غالب عطا بیان کرتے ہیں ”جمہوریت کو اسلامائز کرنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص قربانی کے بکرے کی بجائے س¶ر لے آئے لہٰذا ہمیں اس س¶ر سے نجات حاصل کر کے اس بکرے کو لانا ہو گا جس کی قربانی اللہ کی نظر میں جائز ہے۔“ میں اپنی گزارشات تو بعد میں عرض کروں گا پہلے خود ڈاکٹر اسرار احمد کی تحریر اور تجزیہ ملاحظہ کر لیجئے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب ”برعظیم“ پاک و ہند میں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید و تعمیل اور اس سے انحراف کی راہیں“ میں تحریر فرماتے ہیں ”چنانچہ یہ اسی کا مظہر ہے کہ حضرت علامہ اقبال نے ”ری پبلکن طرزِ حکومت“ کو اسلام کی روح کے عین مطابق قرار دیا --- اس لئے کہ اس میں کیا شک ہے کہ خدا کی حاکمیت مطلقہ کی تابع جمہوریت اور اللہ کی ربوبیت عامہ کے تقاضوں کو پورا کرنے اور کفالت عامہ کی ضمانت دینے والے نظام ہی کا نام ’نظامِ خلافت‘ ہے۔“
جس جمہوریت کے بارے میں تنظیم اسلامی کے ترجمان ندائے خلافت میں ”س¶ر“ تک کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اسی جمہوریت کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کا ارشاد یہ ہے کہ اگر یہ خدا کی حاکمیت مطلقہ کی تابع ہو تو یہ اسلامی انقلاب مقصود ہے۔
اس نشست میں خاکسار نے یہی عرض کیا کہ قراردادِ مقاصد کا پہلا نکتہ ہی یہ ہے کہ دستورِ اسلامی میں حاکمیت مطلقہ رب ذوالجلال کو حاصل ہو گی اور پاکستانی پارلیمنٹ ایک امانت کے طور پر حق حاکمیت کو استعمال کریگی۔ میں نے یہ بھی کہا کہ جو باتیں اور چیزیں طے شدہ ہیں ان کو دوبارہ زیر بحث لانا اتحاد کا نہیں انتشار کا باعث ہو گا۔ میں نے حافظ عاکف سعید سے پوچھا کہ کیا وہ 1951ءمیں طے پانے والے تمام مکاتب فکر کے 31 علمائے کرام کے 22 نکات کو تسلیم کرتے ہیں اور کیا وہ 1973ءمیں متفقہ طور پر منظور ہونے والے آئین کو مانتے ہیں۔ حافظ صاحب نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔
ہر زمانے میں عامة الناس کی تفہیم کیلئے استعمال ہونے والے الفاظ اور اصطلاحات کسی کی میراث نہیں ہوتے۔ آج اگر مغرب نے شورائیت کیلئے جمہوریت کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ لفظ مسلمانوں کیلئے حرام ہو جائے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اپنی تحریروں اور تقریروں میں جا بجا آج کے دور کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں --- وہ عدل اجتماعی، جمہوری انقلاب، حکمت انقلاب، اسلامی نظام، اسلامی انقلاب وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں نے حافظ عاکف سعید سے پوچھا کہ ہمارے نزدیک اللہ کی حاکمیت مطلقہ کے سایہ¿ رحمت میں آنے والی جمہوریت خلافت ہی کا دوسرا نام ہے۔ آپ چونکہ اسے جمہوریت سے الگ بلکہ اس کی ضد سمجھتے ہیں تو آپ یہ فرمائیں کہ یہ خلافت قائم کیسے ہو گی اور ایک دفعہ خلیفہ بن جانے والے شخص کو معزول کیسے کیا جائے گا۔ اسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کیلئے ایک الگ نشست کی ضرورت ہے تاہم یہ ہدف تحریک سے حاصل ہو گا۔ البتہ تحریک کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کر کے پھر اسے جمہوری اور انتخابات کے راستے پر ڈال دیا جائے گا۔ اس پر محفل میں شریک ایک معروف صاحبِ قلم نے کہا کہ پاکستان میں جتنی بھی تحریکیں چلیں اسکے نتیجے میں فوجی آمریت ہی مسلط ہوئی۔
ہمیں حیرت ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد قائداعظم محمد علی جناح کی مساعی جمیلہ اور علامہ اقبال کے ارشادات عالیہ کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں، خدا کی حاکمیت مطلقہ کو ماننے والی جمہوریت کو عین خلافت قرار دیتے ہیں پھر وہ اسلامی نظام اور اس نظام کے قیام کے لئے ذہن سازی اور انتخابی سیاست کو کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے خیال میں ڈاکٹر اسرار احمد اور اب اپنے والد کی فکر کے وارث حافظ عاکف سعید ایک ایسے تضاد کا شکار ہیں کہ جو خود ڈاکٹر صاحب کی مجموعی فکر اور ان کی ایک نہیں درجنوں تحریروں اور تقریروں کی ضد ہے۔
ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ 1957ءمیں جب ڈاکٹر اسرار احمد عین عنفوانِ شباب میں جماعت اسلامی سے الگ ہوئے تو اس کا سبب فکری اختلافات نہیں شخصی اختلافات تھے۔ اگر بقول حافظ عاکف سعید تحریک خلافت کی آخری منزل جمہوریت اور انتخابات ہے تو پھر اسلامی انقلاب شورائی اور انتخابی ذریعے سے کیوں نہ لایا جائے۔ آج ساری اسلامی دنیا مختلف تجربے کرنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہی اسلامی انقلاب حقیقی اور دیرپا ہو گا جو جمہوری مسلمین کی ”بیعت“ جس کا موجودہ نام ”ووٹ“ ہے کے ذریعے آئے گا۔ اسی جمہوریت کی برکت سے ترکی، مصر، ٹیونس اور دوسرے کئی ممالک میں اسلامی انقلاب آ چکا ہے یا وہ دستک دے رہا ہے۔
اگر اللہ اور اس کا رسول چاہتے تو وہ دیگر عبادات کی طرح نظام حکومت کے بارے میں بھی تفصیلی ہدایادت دے سکتے تھے مگر اسلامی نظام حکومت کے بارے میں چند اصولی تعلیمات بیان کرنے کے بعد اسے ہر زمانے کیلئے آزاد چھوڑ دیا گیا تاکہ عامة المسلمین اپنے زمانے اور اپنے حالات کے مطابق جیسا طرز حکومت چاہیں اختیار کر لیں۔ ان ہدایات میں واضح کر دیا گیا ہے کہ حاکمیت مطلقہ اللہ کو حاصل ہو گی۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ وہ اپنے ”معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں“ نیز قرآن و سُنت کےخلاف سارے مسلمان بھی اکٹھے ہو جائیں تو کوئی قانون بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی بدلا جا سکتا ہے۔ اگر ہم سائنسی مضامین کیلئے آج کا اسلوب بیان اختیار کر سکتے ہیں اور قرآنی ارشاد کہ ”اپنے گھوڑے تیار رکھو“ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ہر دور کا جدید ترین اسلحہ حاصل کرو تو پھر ہم شورائیت کیلئے دور جدید کی عام فہم اصطلاح جمہوریت کیوں نہیں استعمال کر سکتے۔
پلک جھپکنے میں انسان نہیں بدلتے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ علمائے کرام کو عمل خیر کے تسلسل میں کام جاری رکھنا چاہئے اور اتحاد امت کیلئے پہلے سے طے شدہ باتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں خاکسار نے عرض کیا تھا کہ ایم ایم اے دینی قوتوں کے اتحاد کی ایک شاندار کوشش تھی اسے جاری رہنا چاہئے اور آنے والے انتخابی معرکے میں تمام دینی قوتوں کو اپنا وزن ایم ایم اے کے پلڑے میں ڈالنا چاہئے۔ ہم حافظ عاکف سعید کی فراخدلانہ میزبانی اور ایک فکر انگیز نشست کا اہتمام کرنے پر تہہ دل سے ان کے شکر گزار ہیں اور ان سے درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ چند مخصوص الفاظ کے انتخاب اور استعمال پر زیادہ زور نہ دیں اور جمہوریت کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے میں دینی قوتوں کا ساتھ دیں۔


جمہوریت اور خلافت کا فرق

0 تبصرہ جات

جمہوریت اور خلافت کا فرق 

http://sphotos-b.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-snc7/3613_446145752109037_880780785_n.jpg  آج کا نافذ شدہ نظام، جس میں انسان اپنی خواہشات (اکثریت) کی بنیاد پر قانون سازی کرنے کیلئے آزاد ہے جس کے مابق وہ زندگی گزارنا چاہتا ہے جو کہ الله عزواجل کی شریعت، قرآن کے احکامات اور نبی کریم محمّد کی سنت کے بلکل خلاف ہے. آج کے معاشی نظام کی بنیاد سود ہے، زنا کی حد منسوخ ہے، چور کی ہاتھ نہیں کاٹے جاتے جو کے الله ازواجل کا حکم ہے، معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے، بہن بیٹی کی عزت محفوظ نہیں، مسلمان ظلم و تشدد کا شکار ہے، سڑکوں اور گلیوں پر امّت محمّدی کا خون بلا خوف و خطر بہایا جاتا ہے، آئین اور عدلیہ کی بنیاد انڈین اور برطانوی ایکٹ ١٩٣٥ (کفر) ہے، تعلیمی نظام لادینیت (سیکولرزم) پر مبنی ہے، ان سب کی وجہ انسان کو اپنی مرضی سے قانون سازی کا اختیار ہے جو اسے جمہوری نظام میں حاصل ہے, جمہوریت کیلئے ووٹ ایک شیطانی امانت ہے، آج ضرورت صرف کفر (جمہوریت کو ووٹ) سے انکار کی ہے تاکہ اسلامی نظام کی آواز کو بلند کرکے اسلام کو نافذ کیا جا سکے

اس کے برعکس الله عزواجل نے اپنے نبی محمّد رحمت اللعلمین کے ذریعہ ایک مکمل نظام (دین و شریعت) ہم تک پہنچایا ہے جو کے "نظام خلافت" ہے، جس کے ذریعہ دنیا میں اسلام کا مکمل نظام ہوتا ہے جو درحقیقت انسانیت کی فلاح اور الله ازواجل کی رحمت کا ذریعہ ہے.

 


یوایس بی میں وائرس کی وجہ سے ہائیڈ ہوجانے والی فائلز اور فولڈر کا حل

0 تبصرہ جات
یوایس بی میں وائرس کی وجہ سے ہائیڈ ہوجانے والی فائلز اور فولڈر کا حل

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
اکثر و بیشتر دیکنھے میں آیا ہے کہ یو ایس بی ڈرائیوز میں ایسے وائرس آجاتے ہیں جو تمام فائلز اور فولڈرز کو چھپا/ ہائیڈ کردیتے ہیں۔
آج اللہ کے فضل و کرم سے اس کا حل لے کر حاضر خدمت ہوں
صرف اور صرف یو ایس بی کو کسی ایسے کمپیوٹر میں لگائیں جس میں وائیرس نہ ہو۔ پھر RUN میں CMD لکھ کر ڈاس/ DOS کھولیں اور نیچے دی گئي لائین کو لکھیں جہاں جی/G لکھا ہے وہاں آپنا ڈرائیو لیٹر لکھیں اور اینٹر داغ دیں۔ چند سکنڈ کے بعد آپ کی ڈرائیو میں تمام فولڈر ظاہر ہوجائیں گے ان شاء اللہ


اگر مزید مشکلات آرہی ہوں تو قریبی ڈاکٹر سے رجوع کریں(ابتسامہ)

شرائط ِخلافت

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شرائط ِخلافت  

اللہ نے دین اسلام اس لیئے نازل کیا تاکہ اس کو پوری دنیا کے باطل ادیان پر غالب کیا جائے، اللہ کے نبی محمدﷺ نے ، اُن کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، ان کے بعد تابعین نے، ان کے بعد اتباع تابعین نے اور ان کے بعد امت کے سلف صالحین نے اپنی طاقت سے بڑ کر اس مقصد کے لیئے کوششیں کی اور اسلام کو باطل ادیان پر غالب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر موجودہ دور میں مسلمان شدید مغلوب ہوچکے ہیں، کلمہ پڑھنے والے اسلام کی تعلیمات سے بےبہرہ ہیں جس کی وجہ سے جہالت عام ہوچکی ہے اور مسلمان مغلوبیت کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور جو دین اور نظامِ زندگی اللہ نے مسلمانوں کو دیا تھا یعنی خلافت کا نظام اس کو غالب کرنے کی بجائے اس کو سرے چھوڑ ہی چکے ہیں اور اس کے مقابلے پر کافروں کے نظامِ زندگی اپنائے ہوئے ہیں، ایک بات یاد رکھیں اسلام صرف نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کا ہی نام نہیں ہے بلکہ اصل اسلام کی روح اسلام کے نظامِ حیات میں ہے اگر وہ نظام ہمارے پاس نہیں تو سمجھ لیں کچھ بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔

آج کا مضمون خلافت کا اہم حصہ خلیفہ کی شرائط جو قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں پر پیش کر رہا ہوں۔ ایک فرمان رسولﷺ پیش کرکے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں ان شاءاللہ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام ڈھال ہے اس کے پیچھے سے لڑا جاتا ہے۔ ::بخاری و مسلم::یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج ہمارے پاس وہ امام یعنی خلیفہ موجود ہے؟؟؟ اگر نہیں ہے تو اس کو قائم کرنے کے لیئے ہم کیا اقدامات اور تدبیر اختیار کر رہے ہیں؟؟؟؟

خلیفہ کے مقتدرہونے کی بناء : مومنین کی نصرت


نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ

مَا بَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُوْنَ شُرُوْ طًا لَیْسَتْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ مَا کَانَ مِنْ شَرْطٍ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ فَھُوَ بَاطِلٌ وَ اِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ قَضَاءُ اللّٰہِ اَحَقُّ وَ شَرْطُ اللّٰہ اَوْثَقُ

لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا اللہ کی کتاب میں پتہ نہیں۔ جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں بھی ہوں ۔ اللہ ہی کا حکم حق ہے اور اللہ ہی کی شرط پکی ہے ۔ ( بخاری ،کتاب البیوع۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا)
نبی ﷺ کے اس ارشاد کی بناء پر ہر معاملے میں صرف وہی شرط اختیار کی جا سکتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے پیش کی گئی ہو، اس بنا پر کسی شخص کے خلیفہ قرار پانے کی بناء بھی اللہ کی مقرر کردہ شرائط ہوں گی نہ کہ انسانوں کی پیش کردہ شرائط۔
کسی شخص کے خلیفہ قرار پانے کے لئے کتاب وسنت سے درج ذیل شرائط ہمارے سامنے آتی ہیں۔
۱۔ اہل ِ ایمان میں سے ہو

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ !
یٰٓاَ یُّھَاا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی ا لْاَ مْرِ مِنْکُمْ

اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور صاحبانِ امر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں۔
(۴:النساء ۔ ۵۹)

۲۔ مرد ہو

نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ!
لَنْ یُّفْلِحَ قَومٌ وَلَّوْا اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً

وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو عورت کو اپنا حاکم بنائے۔
(بخاری ،کتاب المغازی ۔ابو بکرہ رضی اللہ عنہ)

۳۔ قریشی ہو

نبیﷺ کے ارشادات ہیں کہ!
اَلاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ

امامت قریش میں رہے گی۔ (احمد: باقی مسند المکثرین۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ)
لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْش ٍمَا بَقِیَ مِنْھُمُ اثْنَان ِ

یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی بے شک ان (قریش ) میں سے دو ہی آدمی باقی رہ جائیں۔
(بخاری ،کتاب الاحکام ۔عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ)
لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْش ٍمَا بَقِیَ مِنَ النَّاسِ اثْنَانِ

یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی بے شک انسانوں میں سے دو ہی آدمی باقی رہ جائیں۔
(مسلم:کتاب الامارۃ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ)
اِنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ فِیْ قُرَیْشٍ لَا یُعَادِیْھِمْ اَحَدَ اِلَّا کَبَّہُ اللّٰہُ عَلَی وَجْھِہٖ مَٓا اَ قَامُوْا الدِّیْنَ

یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے اور جو کوئی ان سے دشمنی کرے گا اللہ اس کو اوندھے منہ جہنم میں گرائے گا۔ ( بخاری: کتاب الاحکام۔امیر معاویہ رضی اللہ عنہ)
حدیث بالا سے عام طور پر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب قریش دین کو قائم نہ رکھیں گے تو خلافت ان سے چھن کر غیر قریشیوں کے سپرد ہو جائیگی لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات واضح ہیں کہ ’’یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی‘‘ اس بنا پر آپ کے اس ارشاد کہ ’’ یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے‘‘ کا صاف مطلب یہ سامنے آتا ہے کہ جب قریش دین کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو خلافت سرے ہی سے ختم ہو جائیگی نہ کہ غیر قریش کو منتقل ہو جائیگی درج بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غیر قریشی کی خلافت غیر شرعی ہو گی۔
حبشی غلام کی خلافت کا مسئلہ

نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ!
اِسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌ کَانَ رَأَسُہ‘ زَبِیْبَۃٌ

حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو بے شک تم پر ایک حبشی غلام مقرر کیا جائے جس کا سر منقے کی طرح ہو۔
(بخاری:کتاب الاحکام۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ)
اِنْ اُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌحَسِبْتُھَا قَالَتْ اَسْوَدُ یَقُوْدُکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَاَطِیْعُوْا۔

اگر تمہارے اوپر ہاتھ پاؤں کٹا کالا غلام بھی امیر بنایا جائے اور وہ تمہیں کتاب اللہ کے ساتھ چلائے تو اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ ( مسلم: کتاب الامارۃ ۔جدت یحیٰ بن حصین رضی اللہ عنہا)
بعض لوگ نبیﷺ کے درج بالا ارشاد ات کی بنا پرغیر قریشی کے علاوہ کسی غلام کو بھی خلیفہ بنانا جائز سمجھتے ہیں ۔جبکہ آپﷺ کے ارشادات کو غور سے پڑھنے سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے اسْتَعْمِلَ(استعمال کیا جائے) اور اُمِّرَ( امیرمقرر کیا جائے ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔جو اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اس استعمال کیے جانے والے یا مقرر کیے جانے والے امیرکے پس منظر میں اس سے بھی بڑی کوئی ایسی اتھارٹی موجود ہے جو اس کو استعمال کر رہی ہے یا امیرمقرر کر رہی ہے اور یہ بات طے ہے کہ کتاب و سنت میں امت کے اندر اللہ کے بعد سب سے بڑی اتھارٹی نبی کی ہوتی ہے اور اُس کے بعد خلیفہ کی جو امیر مقرر کرتی ہے جیسا کہ ذیل کی حدیث سے واضح ہوتا ہے ۔
بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ سَرِیَّۃً وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ رَجُلًا مِّنَ الْاَنْصَارِ وَاَمَرَ ھُمْ اَنْ یَّسْمَعُوْا لَہٗ وَ یُطِیْعُوْ ہُ

رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک انصاری کو امیر مقررکیا اور لوگوں کو اس کا حکم سننے اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ۔ (مسلم :کتاب الامارۃ۔علی رضی اللہ عنہ)
درج بالا احادیث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مقرر کیا جانے والا امیرخلیفہ نہیں بلکہ خلیفہ کی طرف سے مقرر کیا جانے والا کوئی ذیلی حاکم (سپہ سالار یا کسی صوبے یا محکمے کا امیر) ہے جو غیر قریشی بھی ہو سکتا ہے اور غلام بھی لیکن وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا ۔
۴۔ عاقل و بالغ ہو

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ !
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ﴿﴾ وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰٓی اِذَا بَلَغُوْا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْآ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ

اور نہ دو کم عقلوں کو اپنے مال جس کو بنایا اللہ نے تمہارے لیے ذریعہ گزران اور کھلاؤ انہیں اس میں سے اور پہناؤ بھی اور سمجھاؤ انہیں اچھی بات۔ اور جانتے پرکھتے رہو یتیموں کو یہاں تک کہ جب پہنچ جائیں نکاح کی عمر کو ، پھر اگر تم پاؤ ان میں عقل کی پختگی تو دے دو ان کو مال ان کے۔ (۴:النساء۔۵،۶)
درج بالا آیات میں یتیموں کوان کے مال صرف اس وقت حوالے کرنے کا حکم نکلتا ہے جب وہ عاقل و بالغ ہو جائیں۔ جب کسی کو اس کا مال اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ عاقل و بالغ نہ ہو جائے تو اہل ِ ایمان کی سیاست کی ذمہ داری کسی ایسے فردکو کیونکر دی جا سکتی ہے جو عاقل و بالغ نہ ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خلیفہ صرف اسی کو بنایا جائے گا جو عاقل و بالغ ہو ۔
۵۔ خلافت کی خواہش سے بے نیاز ہو

جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ!
تَجِدُوْنَ النَّاسِ مَعَادِنَ فَخِیَارُھُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقُھُوْا وَ تَجِدُوْنَ مِنْ خَیْرِ النَّاسِ فِی ھٰذَا الْاَمْرِ اَکْرَھُھُمْ لَہ‘ قَبْلُ اَنْ یَّقَعَ فِیْہِ

تم لوگوں کو معدن (معدنی کان سے نکلی ہوئی چیز) کی مانند پاؤ گے جو جاہلیت میں اچھا ہوتا ہے وہی اسلام میں بھی اچھا ہوتا ہے جب وہ دین کی سمجھ پیدا کرلے اور تم اس امر(خلافت) کے لیے وہی آدمی زیادہ موزوں پاؤ گے جو اس کو بہت بری چیز خیال کرے تا آنکہ ایسا شخص خلیفہ بنا دیا جائے۔
(مسلم: کتاب فضائل الصحابۃؓ۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہا)

لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ فَاِنَّکَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ مَسْئَلَۃٍ وُّ کِلْتَ اَلِیْھَا وَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسّْئَلَۃٍ اُعِنْتَ عَلِیْھَا

حکومت مت مانگوکیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پرملی تو تم (بے یارومددگار) اسی کے حوالے کر دیے جاؤ گے اور اگر بغیر مانگے ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائیگی۔ (مسلم:کتاب الامارۃ۔عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ)
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ‘ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ ﷺ اَنَا وَ رَجُلَانِ مِنْ بَنِیْ عَمِّیْ فَقَالَ اَحَدُ الرَّجُلَیْنِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَمَّرَنَا عَلَی بَعْضِ مَا وَلَّاکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ وَ قَالَ الْاَخَرُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ اِنَّا وَ اللّٰہِ لَا نُوَلِّیْ عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَأَلَہ‘ وَلَآ اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ
ابو موسٰی ؓ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا اے اللہ کے رسول ﷺہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔ (مسلم،کتاب الامارۃ۔ابی موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ)
۶۔ پہلی بیعت کا حامل ہو

پہلی بیعت، عہدہِ خلافت خالی ہونے پر گواہوں کی موجودگی میں شرائط ِخلافت کے حامل کسی شخص ‘‘کے ہاتھ پرایک مومن کی طرف سے ہونے والی وہ بیعت ہے جو نیا خلیفہ بنانے کے حوالے سے امت میں سب سے پہلی بیعت ثابت ہو جائے ۔پہلی بیعت کا حامل اگردیگر شرائط خلافت پوری کرتا ہے تو اس پہلی بیعت کے منعقد ہونے کے وقت سے پوری اُمت کے لئے خلیفہ قرار پا جا تا ہے۔
٭ دیگرشرائطِ خلافت کا حامل ’’پہلی بیعت ‘‘کی فیصلہ کن شرط کا حامل ہو کر ’’سیاستِ اُمّہ کا ذمہ دار
و عہدہ دار قرارپاجاتا ہے اوراس حوالے سے نام ِ عہدہ ’’خلیفہ‘‘ کا حامل ہو کر خلیفہ کہلاتا ہے ۔
٭ دیگرشرائطِ خلافت کا حامل ’’پہلی بیعت ‘‘کا حامل ہو کر سیاستِ اُمّہ کی ذمہ داری کے حوالے
سے نبی ﷺ کانائب و جانشین قرار پا جاتا ہے اوراس حوالے سے خلیفہ کہلاتاہے ۔
٭ دیگرشرائطِ خلافت کا حامل پہلی بیعت کا حامل ہو کر تمام مسلمین کی سلطنت کا اُصولاًخلیفہ::وارث::
قرار پا جاتا ہے پھر مسلمین کی طرف سے اپنی سلطنت کے اس اصولاً خلیفہ کواپنی بیعت ،اطاعت
ونصرت کے ذریعے اپنی سلطنت سپرد کر دینے سے یہ’’عملاً خلیفہ ‘‘ بن جاتا ہے۔
خلیفہ مومنین کی نصرت میسرآنے سے سلطنت و اقتدار کا حامل ہوتا ہےجیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حامل ہوئے تھے
نبیﷺ اللہ کے مقرر کردہ نشانیوں کی بناء پر اللہ کے نبی تھے اور اس بنا پراصولاً تمام جن و انس کے حکمران اور تمام روئے زمین کے اقتدار کے حقدار تھے مگر اپنی بعثت کے ساڑھے تیرہ سال بعد تک روئے زمین کے کسی حصے پر اقتدار کے ’’عملاً حامل ‘‘ نہ ہو سکے تھے۔ آخر کار اللہ کی طرف سے آپ کو مومنین کی نصرت میسر آئی جس کے ذریعے سے شروع میں آپ مدینہ کی چھوٹی سی ریاست پرعملاًمقتدر ہوئے پھر مومنین کی نصرت ہی کی بنا پر قتال کے قابل ہوئے اور اس نصرت کے ذریعے سے اس چھوٹی سی ریاست کو وسعت دینے کے قابل ہوئے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ !
فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط ھُوْالَّذِیْ ٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ﴿﴾

تو یقینا کافی ہے تمہارے لیے اللہ ۔ وہی تو ہے جس نے قوت بہم پہنچائی تمھیں اپنی نصرت سے اور مومنین کے ذریعہ سے۔
(۸:الانفال۔ ۶۲)

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ پہلی بیعت کا حامل ہو جانے والا ’’اس پہلی بیعت سے ‘‘ خلیفہ قرار پاجا تا ہے اور تمام اہلِ ایمان پر لازم ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ وفاداری نبھائیں اور اسے اس کے حقوق (بیعت ، اطاعت و نصرت) دیں۔ یوں وہ ’’ صرف ایک شخص‘‘یعنی پہلی بیعت کرنے والے پر مقتدر ہونے کی انتہائی کمزور حالت سے دیگر مومنین کی طرف سے بیعت کرتے چلے جانے ،ان کی طرف سے اپنے اوپراس خلیفہ کا اختیار و اقتدار تسلیم کرتے چلے جانے، اس کی اطاعت اختیار کرتے چلے جانے اور اس کی نصرت پر کاربند ہوتے چلے جانے سے یہ خلیفہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
پہلی بیعت کا حامل ہونے والا نبی ﷺ کی طرح اصولاً تو تمام اہل ِ ایمان کے لیے خلیفہ ، امیر، امام اور سلطان مقرر ہوتا ہے لیکن عملاً اس کا اقتدار وہاں تک قائم ہوتاہے جہاں تک کے لوگ اس کی بیعت و اطاعت اختیار کرتے ہیں جیسے نبیﷺ اصولاً تو تمام روئے زمین کے لیے مقتدر مقرر کیے گئے تھے لیکن عملاً آپؐ کااقتدار وہاں تک قائم ہوا تھا جہاں تک کے لوگ آپؐ پر ایمان لائے یا ایمان نہ لانے کے باوجود اہل ِ ایمان کی نصرت کے نتیجے میں آپ کے مطیع (ذمی) ہوئے۔
جوں جوں لوگ خلیفہ کی بیعت، اطاعت و نصرت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اس کی امامت ، امارت اور سلطنت و اقتدارکا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اقتدار
تمام مومنین کی بیعت ، اطاعت و نصرت میسر
آ جانے کی بنا پر تمام بلادِ اسلامیہ پر با آسانی قائم ہو گیا
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر پہلی بیعت کے انعقاد سے پہلے اگرچہ دیگر شرائط پوری کرتے تھے لیکن آپ ابھی ’’خلیفہ ‘‘نہیں تھے ورنہ صحابہ، عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے پہلے ہی آپ ؓ پر مجتمع ہو جاتے جبکہ ایسا نہ ہو سکا مگر جونہی آپ کے ہاتھ پر عمرؓ کے بیعت کرنے سے پہلی بیعت منعقد ہو گئی ا ٓپ خلیفہ قرار پا گئے مگر بیعت ہوتے ہی سب سے پہلے آپؓ کا اقتدار اس شخص پر قائم ہوا جس نے آپؓ کی بیعت کر کے اپنے اوپر آپؓ کا اقتدار تسلیم کیا یعنی عمر رضی اللہ عنہ ،پھر آپ کا اقتدار ثقیفہ بنی ساعدہ میں موجود بقیہ، بیعت کر کے آپکا اقتدار تسلیم کرنے والوں پر قائم ہوا پھر بقیہ افرادِ امت کے بیعت کرتے چلے جانے اور آپ کی اطاعت و نصرت اختیار کرتے چلے جانے سے آپ کے اقتدار کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا مگر یہ وسیع ہوتا ہوا دائرہ وہاں رک گیا جہاں مرتدین و منکرین زکوٰۃ کی حدیں شروع ہو گئیں۔ وہاں اہل ِ ایمان کی نصرت ہی سے ان کی سرکوبی ممکن ہوئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان تمام بلادِ اسلامیہ پر آپ کا اقتدار قائم ہو گیا جو نبیﷺ چھوڑ کر گئے تھے پھر اہل ِایمان کی نصرت ہی سے آپ کے اقتدارکا دائرہ کار پہلے سے زیرِ خلافت علاقوں سے بھی آگے بڑھنا شروع ہو گیا۔
علی رضی اللہ عنہ کا اقتدار شام کے مومنین کی بیعت ، اطاعت اور نصرت میسر نہ آ نے کی بنا پر بلاِ دِ شام پر قائم نہ ہو سکا

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد آنے والے دو خلفاء کا اقتدار بھی تمام اہلِ ایمان کی وفاداری فوراً میسر آ جانے پر پورے بلادِ اسلامیہ پر باآسانی قائم ہو گیا مگر علی رضی اللہ عنہ کو اہلِ شام کی بیعت، اطاعت و نصرت میسر نہ آ سکنے پر آپؓ کا اقتدار بلادِ شام پر قائم نہ ہو سکا۔
خلیفہ مقرر کرنے سے پہلے مجوزہ شخص پر اتفاق ِاُمت کی شرط

بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ مقرر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ساری اُمت خلیفہ کے لیے مجوزہ شخص پر متفق ہو چکی ہو۔
یہ شرط رکھنے والوں سے سوال ہے کہ اللہ کی شریعت میں اگریہ چیز شرط ہے تو لمبا عرصہ گزر چکاتھاخلافت کو ختم ہوئے آپ لوگ کسی ایک شخص پر متفق کیوں نہیں ہو گئے؟ جواب میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو ایک بہترین لیڈر پیش کیا تھا ( پارٹیوں والے اپنے اپنے لیڈر کا نام لیتے ہیں ) لوگ اس پر متفق نہیں ہوئے تو یہ لوگوں کا قصور ہے۔
’’ بعض لوگوں کے پسندیدہ لیڈر‘‘ پر تمام لوگ متفق نہیں ہوئے تو یہ لوگوں کا قصور نہیں بلکہ یہ فطرت کا تقاضہ ہے کیونکہ!
۱۔ اختلاف انسانوں کی فطرت میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ﴿﴾ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ ط وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ

اگر تیرا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی جماعت بنا دیتا مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے سوائے ان کے جن پر رحمت ہو تیرے رب کی اور اسی (امتحان) کے
لیے اس نے پیدا کیا ہے انہیں۔
(۱۱:ھود۔ ۱۱۸،۱۱۹)
۲۔ اہل ِ ایمان اگر کسی چیز پرمتفق رہ سکتے ہیں تو وہ صرف اللہ اور اسکے رسولﷺ کی بات ہے، اسی سے نکلنے کی بنا پر وہ تنازعے میں مبتلاء ہوتے ہیں، اور اگر وہ تنازعے میں مبتلا ہوجائیں تو جس بات پہ وہ دوبارہ متفق ہو سکتے ہیں وہ بھی صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات ہے کیونکہ اسی کا انہیں حکم دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَاتَفَرَّقُوْا

اور تم سب مل کر حبل ِاللہ(کتاب اللہ) کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو کرو۔
(۳۔آلِ عمران۔۱۰۳)
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوُلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا

اوراطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور تنازعہ مت کرو(۸:انفال۔۴۶)
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴿﴾

اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں تنازعہ پیدا ہو جائے تو اسے لوٹا دو فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی چیز اچھی ہے اور انجام کے اعتبار سے بہترین بھی ۔ ( ۴: النساء۔۵۹)
۳۔ اہل ِ ایمان از خود یا کسی کی دعوت دینے پر بھی کسی ایسی چیز یا شخص پرمتفق نہیں ہو سکتے جس پرمتفق ہونے کے لیے کوئی شرعی دلیل نہ ہو جبکہ اندھا دھند(اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے لڑتے ہوئے قتل ہو جانے کو جاہلیت کا قتل بھی کہا گیا ہے۔نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ
مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَاْیَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَِغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْ یَدْعُوْا اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ

جو شخص اندھا دھند(اندھی تقلید میں)کسی کے جھنڈے تلے لڑتا ہوا مارا جائے جوگروہ کے لئے غضب ناک ہو ،گروہ کی طرف دعوت دے اورگروہ کی نصرت کرے اور قتل ہوجائے تو ا س کا قتل جاہلیت کا قتل ہے۔
مسلم: باب الامارہ۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ
نبیﷺ کی وفات کے فوراً بعد، انبیاء کے بعد سب سے بہترین لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ازخودکسی شخص پر متفق نہیں ہو پا رہے تھے اور اس سلسلے میں ان کے تین گروہ بن گئے تھے۔ مہاجرین کی اکثریت نے ابو بکرؓ پر اتفاق کر لیا تھامگر علیؓ اور زبیرؓ اور ان کے ساتھ والوں نے اختلاف کیا تھااور انصار اپنے میں سے خلیفہ بنانا چاہتے۔
ابو بکررضی اللہ عنہ بیعت سے پہلے امت میں بہت محترم اور دیگر شرائط ِ خلافت کے حامل تو تھے مگر اطاعت کے لیے ابھی فیصلہ کن شرعی دلیل کے حامل نہ تھے اس بنا پر صحابہؓ ان کے موجود ہونے کے باوجود ان پر مجتمع نہیں ہو پا رہے تھے مگر ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر عمررضی اللہ عنہ کے بیعت کرنے کے ساتھ ہی ’’ پہلی بیعت‘‘ کی فیصلہ کن شرعی دلیل کے حامل ہو گئے اس کے ساتھ ہی اُمت کے خلیفہ و امام قرار پا گئے اب ان سے اختلاف رکھنے والوں کے لیے بھی کوئی چارہ اس کے سوا نہ رہا تھا کہ شرعی دلیل کے حامل اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کی اطاعت اختیار کر لیں۔ صحا بہ رضی اللہ عنہم اندھی تقلید میں ابو بکر ؓ جیسی عظیم المرتبت شخصیت پر بھی متفق نہ ہو سکے لیکن جونہی آپ شرعی دلیل کے حامل ہو گئے صحابہ رضی اللہ عنہم ان پر باآسانی متفق ہو گئے۔
اس ساری تفصیل سے تقررِ خلیفہ کے حوالے سے جو اصول واضح ہوتا ہے وہ ’’ تقررِخلیفہ سے پہلے اتفاقِ امت‘‘ کی بجائے شرعی دلیل کی بنا پر خلیفہ قرار پا جانے والی شخصیت پر اتفاقِ امت ہے‘‘ اور نبیﷺ بھی ہر امتی کو’’پہلی بیعت ‘‘ کے حامل سے وفاداری کرنے اور اسے اس کا حق دینے کا حکم دے رہے ہیں نہ کہ پوری اُمت کو متفق ہو کے پہلی بیعت کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ
فُوْابِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ فَالْاَ وَّلِ اَعْطُوْ ھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ سَآئِلُھُمْ عَنْ مَّا اسْتَرْعَا ھُمْ۔

پہلی بیعت کے (حامل کے) ساتھ وفاداری کرو پھر پہلی کے ساتھ تم انہیں ان کا حق دو، ان سے انکی رعیت کے بارے میں اللہ پوچھے گا۔ (بخاری :ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
اگر کسی کے خلیفہ قرار پانے کے لئے اتفاق ِ اُمت شرط ہوتا تو پھراُمت پر صرف بارہ خلفاء کا وجود مانا جانا چاہیے کیونکہ اُمت پر صرف بارہ خلفاء ایسے گذریں گے جن پرپوری اُمت متفق ہو سکے گی جیسا کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ
لَا یَزَالُ ھٰذَالدِّیْنُ قَائِمًا حَتّٰی یَکُوْنُ عَلَیْکُمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِیْفَۃً کُلُّھُمْ تَجْتَمِعُ عَلَیْہِ لْاُمَّۃُ فَسَمِعْت کَلَامًا مِنَ النَّبِیِّ ﷺ لَمْ اَفْھَمْہُ قُلْتُ لِاَبِی مَا یَقُوْلُ قَالَ کُلُّھُمْ مِنْ قُرَیْشٍ

یہ دین قائم رہے گا جب تک کہ تم پر بارہ خلیفہ ایسے نہ گذر جائیں جن پر اُمت مجتمع ہوگی،(راوی کہتے ہیں) پھر میں نے نبی ﷺ سے ایسی بات سُنی جسے میں سمجھ نہ سکا، میں نے اپنے باپ سے پوچھا، اُنہوں نے کہا کہ’’ تمام قریش میں سے ہوں گے۔
ابی داود: کتاب المہدی۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ

خلیفہ کے لئے لوگوں کی پیش کردہ شرط’’اتفاق ِ اُمت ‘‘ کو صحیح مان لیا جائے تو پھر علی رضی اللہ عنہ اور حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہیں مانا جانا چاہیے کیونکہ دونوں جب تک خلیفہ رہے ان پر پوری اُمت مجتمع نہیں ہوسکی تھی ۔
آخر میں اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کلمہ پڑھنے والوں کو قرآن اور نبی ﷺ کے فرمان پر مجتمع فرمادے تاکہ پھر سب مسلمان مل کر اللہ کا نازل کردہ نظامِ حکومت یعنی خلافت دینا میں قائم کرسکیں آمین ثم آمین یارب العالمین

پی۔ڈی۔ایف فائل اُتاریں

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

0 تبصرہ جات

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

پاکستان میں آجکل ہر طرف ایک مایوسی کی فضا دکھائی دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب ہمت ہار بیٹھے ہیں اور تمام امیدیں ترک کر دی ہیں۔ میری پچھلی تحاریر میں سے ایک مضمون خود کشی پر مبنی تھا جو کئی افراد کو گراں گزرا۔ اس کی ایک دفعہ وضاحت دینا چاہتا ہوں کہ کسی کے خود کشی کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس خود کشی کرنے والے شخص کا اللہ تعالیٰ پر قطعی یقین نہیں تھا کیونکہ مشکل کشاء صرف اللہ تعالیٰ ہے، رازق، حفیظ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور میری عقل و دانش کے مطابق وہ شخص انتہائی درجہ کا بدنصیب ہے جو اللہ تعالیٰ پر یقین نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں پر کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں سے مانگتا ہے جن کو انتہائی محدود اثر ورسوخ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی دیے ہیں لیکن یہ باتیں ان کو ضرور سمجھ آ سکتی ہیں جن کے دلوں پر فی الوقت ان کے دماغ اور عقل غالب نہیں آئی۔ دین، مذہب اور یقین کا تعلق دل سے ہے دماغ سے نہیں۔۔ دماغ اسباب کو ڈھونڈتا ہے۔۔ دل اسباب فراہم کرنے والے کو ڈھونڈتا ہےاسی لیے اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کے ٹھیک ہونے پر زور دیا ہے۔
دنیا کی تمام اسلام دشمن اور مسلم کش طاقتوں کی آنکھوں میں پاکستان کا وجود پہلے دن سے کھٹکتا آیا ہے۔ ہمارے چند دوست کہتے ہیں کہ پاکستان سے کیا ڈرنا۔۔۔ پاکستان تو کھوکھلا ہو چکا ہے، لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کریں اور تاریخ کے اوراق کو الٹ پلٹ کر دیکھیں تو پاکستان کے وجود کی اہمیت، اس کا مقصد اور اس کی ہیبت کا انداذہ ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں بانی تنظیم اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمد نور اللہ مرقدہُ نے بہت کام کیا ہے۔
جب تحریک پاکستان عروج پر تھی تو اس وقت پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے اور بعد میں بھی پوری دنیا میں کئی جگہوں پر اسلامی ممالک کی تحریکیں چلیں اور کامیاب ہوئیں لیکن وہ تمام تحریکیں قومیت کی بنیاد پر تھیں جیسے انڈونیشیا کے لیے تحریک چلی، خلافت کے گڑھ ترکی میں مصطفیٰ کمال نے ترک قومیت کی بنیاد پر تحریک چلائی جو کامیاب رہی لیکن پوری دنیا میں ایک واحد تحریک پاکستان تھی جس کی بنیاد اسلام تھا۔
پاکستان کا مطلب کیا – لا الہ الا اللہ
اس سے قبل خلافت کے استحقام کے لیے پوری دنیا میں کسی مسلم ملک اور کسی مسلمان میں کوئی اضطراب نہیں پایا گیا لیکن صرف اسی جگہ پر تحریک خلافت اٹھی جو کامیاب تحریک تھی، پورے ہندوستان جو جس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جبکہ خلافت صرف اس وقت کے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے مقدم نہیں تھی بلکہ یہ تو تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے مقدم و مقدس ہے لیکن اضطراب صرف یہیں پایا گیا۔
پھر پاکستان کے ساتھ کئی دوسرے مسلم ممالک وجود میں آئے لیکن صرف پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا گیا، صرف پاکستان کے لیے لا الہ الا اللہ کا نعرہ منتخب کیا گیا جو آج بھی باب آزادی پر ثبت ہے اور وہ باب آزادی پوری دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔
اس کے بعد اسرائیل ایٹمی طاقت بنا۔۔ کہیں پر نہیں کہا گیا یہودی بم، ہندوستان کے نیوکلیئر ٹیسٹ پر کسی نے ہندو بم کا نعرہ نہیں لگایا لیکن جب پاکستان نیوکلئر طاقت بنا اور ایٹم بم کا تجربہ کیا، پوری عالم اسلام اور پوری دنیا میں اسلامی بم کا نعرہ بلند ہوا۔
عرب کے کئی اخباروں میں اگلے دن اسلامی بم کی شہ سرخیاں آویزاں تھیں۔ فلسطینی روزنامہ عرب الیوم میں خبر اسطرح چھپی تھی کہ
اس خطہ میں ہم اسلامی نیوکلئر بم کی پیدائش پر اندرونی طور پر مسرت محسوس کرتے ہیں۔
لبنانی روزنامہ النحر نے اپنے شہ سرخی پر یہ خبر چھاپی کہ
پاکستان دنیا اسلام کی پہلی نیوکلئر طاقت ہے۔
ایک اور لبنانی روزنامہ الحیات کہتا ہے کہ
پاکستان دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا نیوکلئر طاقت کا حامل ملک ہے۔
ایک اور عرب روزنامہ اشراق میں ایک مضمون چھپا جس کا موضوع تھا
اسلامی بم، ایک خواب جو شرمندہ تعبیر ہوا
کویتی اخبار القباس اور الوطن کے مطابق پاکستان کے نیوکلئر تجربہ کی وجہ سے اسلامی دنیا مضبوط ہوئی ہے۔ الغرض پورے عالم اسلام میں اس طرح کی کئی سرخیاں، خبریں، مضامین اور لوگوں میں مسرت اور جذبہ پایا گیا جو پاکستان کے نیوکلئر طاقت بننے کی وجہ سے تھا۔
اس کے بعد جب سے یہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے، جب جارج بُش برطانیہ میں وہاں کے افواج کو اس میں شرکت کے لئے اکسانے گیا، تو اس پریزنٹیشن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے الفاظ قطعی استعمال نہیں ہوئے بلکہ اُدھر اس جنگ کو “کروسیڈ” کا نام دیا گیا جس کا بنیادی ایجنڈا یہ پیش کیا گیا کہ یہ مسلمان خلافت چاہتے ہیں اور جس دن خلافت قائم ہو گئی، اس دن اپنا نوحہ خود پڑھ لینا، لہٰذا اس سے پہلے کہ خلافت قائم ہو، ان مسلمانوں کو کچل دینا چاہیے اور جس جگہ کو ریڈ زون کا خطاب دیا گیا جہاں سے خلافت کا سب سے زیادہ خطرہ ہے، وہ پاکستان تھا کہ ہماری سالمیت کے لیے پاکستان سب سے زیادہ خطرناک ہے، یہاں کی افواج اور عوام اسلام کے نام پر بہت جذباتی اور کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ انہوں نے مظاہرہ دیکھ لیا تھا کہ 1965ء میں اپنے سے کئی گنا بڑے ملک کو ناکوں چنے چبوا دیے، افغان جہاد میں وقت کی سپر پاور سویت یونین کے ٹکڑے کر کے رکھ دیے صرف جذبہ ایمانی کے بنیاد پر۔ افغان طالبان کو بھی ٹریننگ پاکستان کی افواج اور پاکستانی جرنیلوں نے دی تھی جو آج امریکہ سمیت پورے نیٹو اتحاد کے ممالک کی افواج کو بھی شکست دے رہے ہیں۔
پھر پاکستان کے نیوکلئر وار ہیڈز ایسی جگہ پر ہیں کہ آج تک کوئی ملک یہ معلوم نہیں کر سکا کہ یہ لیبارٹریاں کدھر واقع ہیں، ان کی اصل لوکیشن کیا ہے ۔ جو دل پر یقین رکھتے ہیں وہ یہی مانتے ہیں کہ ادھر اللہ تعالیٰ کی افواج کا پہرہ ہے، ادھر کوئی اسلام دشمن اور پاکستان دشمن جانا تو دور کی بعد، ادھر دیکھ تک نہیں سکتا الحمد اللہ۔
اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث موجود ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جب بڑی بڑی لڑایاں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ عجمیوں سے ایک لشکر اٹھائے گا۔ جو عرب سے بڑھ کر شاہ سوار اور ان سے بہتر ہتھیار والے ہوں گے۔ اللہ ان کے ذریعے دین کی مدد فرمائے گا۔
اس کے ساتھ صحیح مسلم میں ایک حدیث حضرت اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہُ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مجھے ہند کی سرزمین سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں۔
جس کی بنیاد پر مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
اس وقت بھی پوری دنیا میں اسلام کے تبلیغ و اشاعت کے لیے سب سے زیادہ کام پاکستان میں ہو رہا ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں کہیں نہ کہیں آپ کو ایک پاکستانی ضرور ملے گا جو تبلیغ دین کا کام کر رہا ہو گا۔ یہ اعزاز بھی پاکستان کے پاس ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ معتبر علماء پاکستان کے ہیں۔
اس کے علاوہ حضرت امام مہدی کے نصرت کے لیے جو لشکر اللہ تعالیٰ اٹھائے گا وہ بھی مشرقی ملک سے ہو گا اور پاکستان مشرق میں موجود ہے۔ یہ سب جو احوال و حوالہ جات ہیں، یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان ایوئیں وجود میں نہیں آ گیا، بلکہ اس کا وجود میں آنا اور قائم رہنا پہلے سے ثابت تھا۔ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے، تو اس معاملے میں میرا ذاتی یقین یہ ہے کہ سونا آگ میں جل کر ہی کندن بنتا ہے۔ پاکستان سے اور پاکستان کی افواج اور عام سے اللہ تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ کام لازمی لینا ہے جس کے لیے مسلسل لوگوں کو آزمایا جا رہا ہے، اور پھر جو لوگ چنے جائیں گے اور ان امتحانات میں کامیاب رہیں گے، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل اور مدد و نصرت سے ان کو فاتحین میں شامل فرمائیں گے ان شاء اللہ۔
لوگ ایبٹ آباد کے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں، تو اس پر بھی میرا یہ ماننا ہے کہ چاہے وہ ایک ڈھونگ اور ڈھکوسلہ تھا اور ایک سنگین کوتاہی اور حکومت وقت کی طرف سے صریحاً غداری کا ثبوت تھا لیکن ایبٹ آباد کے واقعہ کی وجہ سے ہمارے سامنے امریکہ کا ایک خفیہ ہتھیار سامنے آ گیا جس سے پہلے ہمارے سمیت پوری دنیا ناواقف تھی، سٹیلتھ ہیلی کاپٹر جس نے ریڈار کو چکمہ دے دیا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ ہر وقوع پذیر ہونے والے واقعہ کی کوئی نہ کوئی حکمت لازمی ہوتی ہے جو ہمارے لیے بہرصورت فائدہ مند ہوتی ہے، لیکن اس کو پہچاننے کے لیے اپنے دماغ کو ٹھنڈا، دل کا یقین اور دیکھنے والی آنکھ کا ہونا لازمی ہے، چاہے ہمارے لیے اس واقعے کی نوعیت خوشگوار ہو یا تلخ ہو، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، جو بھی ہوتا ہے وہ بہرصورت کسی نہ کسی فائدہ کے لیے ہی ہوتا ہے۔
آخر میں حکیم الامت، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے چند اشعار ہی بطور پیغام کہنا چاہوں گا کہ
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسبان تو ہے
سبق پڑھ پھر صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور تمام امت مسلمہ کو متحد و متفق فرمائے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان اور پاکستان کی عوام کا حامی و ناصر ہو اور پاکستان کو اصل میں اسلامی مملکت پاکستان اور اسلام کا قلعہ بنائے ۔ آمین

تحریک طالبان پاکستان کون اور اغراض و مقاصد۔

0 تبصرہ جات

تحریک طالبان پاکستان کون اور اغراض و مقاصد۔


پہلے دور میں جنگیں ایک قسم کی ہوتی تھیں، جب دونوں افواج ایک دوسرے کے سامنے سینہ سپر ہو جاتی تھیں اور بھڑ جاتی تھیں، سب کو معلوم ہوتا تھا کہ کون دشمن ہے اور کون دوست۔ موجودہ دور میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اب جنگ لڑنے کے کئی طریقے متعارف ہو چکے ہیں اور ان میں سب سے خطرناک طریقہ کہ جب دشمن آپ کے روپ میں آپ کے سامنے آ جائے اور اس تذبذب میں ڈال دے کہ آیا وہ دوست ہے یا دشمن۔
پاکستان کی افواج اس وقت ایسی ہی جنگ سے دوچار ہے اور وزیرستان میں ایسے ہی دشمن کے خلاف سینہ سپر ہے جو مسلمانوں کا روپ دھارے مسلمانوں کے خلاف ہی لڑ رہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو کئی لوگ کہتے ہیں کہ یہ عام قبائلی لوگ تھے، جب ان کے خلاف آپریشن ہوا تو یہ رد عمل میں نکل کھڑے ہوئے جو نوے فیصد تک غلط بات ہے۔ اگر یہ مقامی قبائلی افراد ہیں، اور اگر یہ افواج کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ جب غسل کا وقت آتا ہے تو یہ غیر مسلم کیونکر نکلتے ہیں۔ اکثریت نے وہ فرائض نہیں پورے کیے ہوتے جو ایک مسلمان مرد پر فرض ہیں۔ دس فیصد ان میں ایسے افراد ضرور موجود ہیں جو واقعتاً مسلمان ہیں، ان کے جھانسے میں آ چکے ہیں، جن کے دماغوں کو بالکل خالی کر دیا گیا ہے اور اب وہ ایک چلتا پھرتا روبوٹ ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے بنیادی طور پر دو مقاصد ہیں لیکن یہ مقاصد عرض کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک امر کی وضاحت کی جائے۔ تحریک طالبان پاکستان اور تحریک طالبان افغانستان دو بالکل مختلف تنظیمیں ہیں۔ تحریک طالبان افغانستان ملاء محمد عمر کے حکم کے زیر اثر کام کرتے ہیں اور افغان طالبان کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملاء محمد عمر اور تحریک طالبان افغانستان کا ایک ایک فرد سو فیصد پاکستان کی حمایت میں ہیں۔ اگر تحریک طالبان پاکستان کا افغان طالبان سے کوئی تعلق یا نسبت ہوتی تو ملاء محمد عمر کا وہ خط قطعی رد نہیں کیا جاتا جو کرنل امام کی رہائی کے لیے لکھا گیا تھا۔
تحریک طالبان پاکستان کا اصل اور بنیادی مقصد پاکستان کو دنیا کے سامنے ایک فیلڈ سٹیٹ کے طور پر سامنے لانا ہے، یعنی پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی سرزمین کا دفاع تک نہیں کر سکتی، ادھر اسلحہ بردار افراد کھلے عام گھومتے پھرتے اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں لہٰذا ایسے ملک کے پاس روایتی اور جوہری ہتھیار ہونا بالکل بھی خطرے سے خالی نہیں۔
اس کالعدم تنظیم کا دوسرا بنیادی مقصد اپنے ظالمانہ اور انسانیت سوز حرکتوں اور رویوں سے تحریک طالبان افغانستان کو بدنام کرنا ہے، یعنی دنیا کے سامنے یہ تصویر آ جائے کہ طالبان بہت ہی ظالم ، جابر اور سفاک قسم کے لوگ ہیں، ان کے لیے انسانی زندگی کی کوئی وقعت نہیں اور یہ کہیں بھی کبھی بھی کسی بھی انسان کو ہلاک کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ان مقاصد کو پورا کرنے میں ہمارے میڈیا چینلز اور میڈیا اینکرز کا بہت بڑا کردار ہے جو انہوں نے بخوبی نہایت احسن طریقے سے پورا کیا ہے اور ملک و قوم سے غداری کے “فرائض” خوبصورتی سے ادا کیے ہیں۔ اب ہر پاکستان خاص و عام بغیر سوچے سمجھے افواج پاکستان کو لعن طعن کرنے سے قطعی گریز نہیں کرتا۔ وہ محکمہ جو کبھی عوام کے سر کا جھومر اور ایک مقدس محکمہ سمجھا جاتا تھا، آج اس کو چاروں طرف سے مختلف مغلظات سننے کو ملتی ہیں لیکن یہ بےلوث سپاہی سب کچھ برداشت کرتے ہوئے بھی اس قوم کی حفاظت کے لیے اپنی راتوں کے سکون اور دن کے چین کو حرام کیے ہوئے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان سے اب تک جو بھی اسلحہ برامد ہوا، جو بھی دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا، سب غیر ملکی ساختہ تھا اور ہے۔ جن میں اکثریت بھارتی ساختہ اسلحہ کی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس جدید امریکہ اسلحہ بھی موجود ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی ہی جاری کردہ وڈیوز میں ایک دو دفعہ سکھ انسٹرکٹرر اور ایک دفعہ انگریز انسٹرکر دکھ گیا تھا، جو اس بات کی کھلی گواہی ہے کہ کون سے بیرونی ہاتھ ان تنظیموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں لیکن ہمارے میڈیا چینلز جو یو ٹیوب اور دیگر براڈکاسٹنگ ویب سائٹس سے مختلف وڈیوز تو اپنے خبر نامے میں نشر کرتے ہیں، ایسی وڈیوز ان کی آنکھوں کے سامنے سے شاید قطعی نہیں گزرتیں، یا گزرتی ہیں تو اس وقت آنکھیں بند ہوتی ہیں۔
یہ بات بھی آن ریکارڈ ہے کہ آپریشن کے پہلے پہل قبائل نے بلاشبہ مزاحمت کی تھی، لیکن جب ان پر حقیقت کھلی تو وہی قبائل افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ان غیر ملکی طالبانوں کے خلاف ایسا لڑے کے ان کو اپنی زمین سے بےدخل کیا۔ اب بھی بارڈر پار کون ہے جو ان تحریک طالبان پاکستان کو حفاظت میں رکھتا ہے، اور پھر موقعہ ملتے ہی یہ حملہ کر کے سرحد پار افغان سرزمین میں کدھر غائب ہو جاتے ہیں۔ وہ ایساف کے دستہ جو پاکستان افواج کی آئے روز شکایت کرتے نظر آتے ہیں، ان کا پہرہ سرحد کر اس قدر سخت ہے کہ ایک پاکستانی فوجی کا پاؤں بھی سرحد پار ہو تو ان کا شکایتی بیان میڈیا چینلز کی بریکنگ نیوز میں دکھایا جاتا ہے۔ وہ کیا اس بات سے بالکل بےخبر ہیں کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنے ساتھ بھاری اسلحہ لیکر سرحد پار گیا، پاک سرزمین پر کاروائی کی اور خاموشی سے اسلحہ سمیت واپس آ گیا۔
پاکستانی میڈیا چینلز تو کام ہی ان کے لیے کرتے ہیں جن کا کھاتے ہیں، لیکن پاکستان عوام بھی اگر ایسے آنکھیں بند کر کے فنڈڈ میڈیا چینلز کی اندھی تقلید کرتے رہے تو واللہ علم ایسے لوگوں کا کیا اور کیسا انجام ہو گا۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس سرزمین پاکستان کی حفاظت فرمائے، اس میں سے ایسے شر انگیز عناصر کا قلع قمع فرمائے اور ہم عوام کو عقل، سمجھ اور شعور عطا فرمائے کہ ہم اپنے دوست اور دشمن کو پہچان سکیں۔ آمین
پاکستان زندہ باد
افواج پاکستان پائندہ باد

نظام حکومت؟ خلافت یا جمہوریت

0 تبصرہ جات

نظام حکومت؟ خلافت یا جمہوریت

دنیا کے وجود میں آنے کے بعد اس دنیا میں رہنے والے انسانوں نے کئی حکومتی اور سیاسی نظام تخلیق کئے اور اختیار کیے، لیکن ہر نظام ایک مدت کے بعد اپنی موت آپ ہی مر گیا۔ ان سیاسی نظاموں کے تخلیق کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انسان نے حاکمیت اپنے سر لے لی اور یہ مائنڈ سیٹ بنا لیا کہ افراد کی طاقت سے بالا اور زبردست ہوتی ہے، اور ان تمام سیاسی نظاموں کے برباد ہونے کی سب سے بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ انسان کے بنائے ہوئے نظام تھے۔
جب تک اس دنیا میں خلافت تھی اور جن جن جگہوں پر خلافت نافذ تھی اور مسلمانوں کی حکومت تھی، تب تک دنیا ان تمام جگہوں پر بہت پرسکون اور عدل و مساوات کا گہوارہ تھی، کیونکہ علاقہ کا گورنر ہو یا علاقے کا خلیفہ ہو، وہ اللہ تعالیٰ کو جواب دہ تھا۔ جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی اور صرف خلافت کا نام رہ گیا، تب سے دنیا میں گڑ بڑ شروع ہوئی کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام میں انسانی مداخلت شروع ہو گئی تھی جس کی سب سے بڑی مثال گریٹ اوٹومان ایمپائر (خلافت عثمانیہ) ہے لیکن پھر بھی نام خلافت کا تھا اور حالات اتنے خراب نہیں تھے۔
اس کے بعد کئی نظام آئے، بادشاہت آئی اور ختم ہو گئی، پھر کمیونزم آیا اور اپنی موت آپ مر گیا۔ بیچ میں کئی نظام آتے رہے اور اپنی موت آپ مرتے رہے تاہم بنیادی عقیدہ یہی ہے کہ کمیونزم کی موت کے بعد جمہوریت آئی جس کا مرکز لوگ تھے، جو لوگ چاہیں وہی قانون بن جائے گا اور میرے ذاتی خیال میں جمہوریت کا ہی کا ایک اور تلسلسل سیکلولرازم کی شکل میں سامنے آیا ہوا ہے؛ اب ایک اور نظام سامنے آ رہا ہے آہستہ آہستہ جس کو ہم عرف عام میں دجالی نظام کہتے ہیں اور دنیا کی زبان میں نیو ورلڈ آرڈر (وَن ٹو روول آل) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس تمام صورتحال میں جو سب سے بڑی برائی رہی، وہ اندھی تقلید ہے۔ جب کمیونزم اپنے عروج پر تھا تو ہر طرف سے آوازیں آتی تھیں کمیونزم کے بغیر ملک نہیں چلتا، پھر کمیونزم ختم ہو گیا اور جمہوریت سامنے آئی تو اب ہر جگہ سے آوازیں آتی ہیں جمہوریت کے بغیر ملک نہیں چلتا، اور اب ایک گروہ ہے جو شرپسند اور اسلام دشمن عناصر پر مبنی ہے جو کہتے ہیں سیکولرازم کے بغیر ملک نہیں چلتا۔
جو نظام ختم ہو گئے، وہ تو گئے لیکن جو موجود ہیں وہ تمام کے تمام اسلامی احکامات سے قطعی طور پر تضاد رکھتے ہیں اور یہ کسی مسلمان ریاست کا قطعی شیوہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک ایسے نظام حکومت کو اپنے ملک میں نافذ کرے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسلام کے طریقوں سے قطعی طور پر تضاد رکھتے ہیں تاہم چونکہ پاکستان اور دنیا کے کئی مسلم ممالک میں جمہوریت ہی نافذ ہے، اسی لیے زیادہ بات اور زیادہ توجہ اسی نظام حکومت پر مرکوز رکھی جائے گی ان شاء اللہ۔
اگر کمیونزم کو دیکھا جائے تو اس میں لوگ رائے نہیں دے سکتے، اقلیتوں کو کچھ گھاس نہیں ڈالی جاتی، وزراء کو حکومت کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور جو حکومت فیصلہ کرے وہ حتمی ہے، یعنی اگر حاکم وقت نے کوئی نہایت بیہودہ اور غلط فیصلہ کیا ہے تو اس پر کوئی چوں چراں نہیں کر سکتا جو کہ بالکل غلط ہے۔
سیکلور ازم میں ہر کسی کو مکمل شخصی آزادی حاصل ہے، یعنی کوئی نماز پڑھے نہ پڑھے، کسی کے ساتھ جس طرح کا تعلق رکھے، جس قسم کی حرکات و سکنات اختیار کرے اور جو مرضی کرتا رہے، اس کی زندگی ہے اس کا اپنا اختیار ہے، ریاست یا کوئی بھی اس کو کچھ نہیں کہہ سکتا، بس قانون کی پاسداری کرتا رہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص شراب بیشک پیے لیکن شراب پی کر گاڑی نہیں چلائے، سگنل نہیں توڑے اوور سپیڈ نہیں ہو وغیرہ وغیرہ اور یہ تو قطعی طور پر غلط ہے۔
جمہوریت میں رائے کا حق اور فیصلہ کرنے کا حق عوام کو حاصل ہے، عوام اپنا نمائندہ چنتے ہیں اور عوام کی رائے کو کوئی چلینج نہیں کر سکتا یعنی اگر عوام کی اکثریت بدفعلی اور غلط روایات اور اقدار پر عمل کرتی ہے، اور وہ اسی وجہ سے ایک حق پر ڈٹے ہوئے شخص کو رد کر کے ایک غلط آدمی اپنے لیے چن لیتی ہے تو یہ بالکل جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔۔۔ یہ بھی بالکل غلط ہے۔
اگر جمہوریت کا اسلامی احکامات و تعلیمات سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں طاقت کا سرچشمہ اور مرکز اللہ تعالیٰ ہے جبکہ جمہوریت میں طاقت کا مرکز عوام ہیں۔ اسلام میں حق پر ڈٹا رہنے والا ہزاروں جھوٹوں پر غالب ہے جبکہ جمہوریت میں جس کے زیادہ ووٹ ہیں، وہ غالب ہے اور اس کا مظاہرہ پچھلے کئی برس سے مسلسل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہی نہیں، اسلام کہتا ہے کہ اگرچہ حق پر ہونے والے قلیل ہوں اور تعداد میں کم ہوں لیکن حق کا ساتھ دینا لازم ہے، جبکہ جمہوریت میں اکثریت جو کہتی ہے، اور جس کا پلڑہ تعداد میں بھاری ہوتا ہے اگرچہ جھوٹ اور غبن اور بے ایمانی اس میں ملی ہوئی ہو، فیصلہ اسی کے حق میں ہوتا ہے اور وہی مسند اقتدار پر براجمان ہوتا ہے۔
جمہوریت کے بارے میں مفکر پاکستان اور حکیم الامت، علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلسِ ملت ہو یا پریوز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر!
تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!
میری رائے کے مطابق اب موجودہ سیکلورازم اسی جمہوریت کا ایک تلسلسل ہے جیسے ایک پودہ ہوتا ہے، وہ جب زمین میں چھوٹا رہتا ہے تو اس کی چھوٹی چھوٹی شاخیں ہوتی ہیں، اور جب بڑھتا ہے تو اس کا حجم، اس کی شاخیں اور گھیراؤ بھی بڑھ جاتا ہے، جمہوریت وہ چھوٹا پودہ تھا، اب جب وہ پودا درخت بنا ہے تو سیکلورازم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جمہوریت وہ ناسور ہے جو آہستہ آہستہ ملک و ملت اور قوم کو اندر سے کھوکھلا کرتا ہے۔ آج پاکستانی قوم کا حال دیکھیئے۔ آزادی جمہور کا آغاز کمیونزم سے ہوا تھا، کمیونزم بہت بری چیز ہے، لوگ کچھ چوں چراں ہی نہیں کر سکتے اس لیے ایک نیا نظام لایا جائے جس میں سب کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہو، اس کا نام جمہوریت ہے لیکن یہ ایک دھوکہ دہی کی بات تھی، اور اس کا اصل کچھ اور تھا۔ مسلمانوں اور مسلم ممالک کو جمہوریت کی غلاظت میں لت پت کرنے کے لیے جو ایک نقطہ سامنے لایا گیا، وہ بات اسلامی نظام سے لی گئی تھی کہ ایک بدو نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعلیٰ عنہُ سے اٹھ کر سوال کیا اور پوچھ گچھ کی لیکن یہ صرف ایک دھوکہ تھا، اصل کچھ اور تھا جو بعد میں آہستہ آہستہ سامنے آیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ شخصی آزادی، انسان جو مرضی کرے اس کو آزادی ہے، کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیئے، پھر عورتوں کی آزادی کا ایک نیا رنگ سامنے لایا گیا، کہ عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا ہے، ان کو پردہ میں بند کرکے نہیں رکھنا چاہیے، ان کی مرضی وہ جیسے چاہیں جس کے ساتھ چاہیں رہیں، ان کو آزاد کیا جائے، پھر ہیومین رائٹس واچ، اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور این جی اوز کا تصور سامنے آیا، اس کے بعد ہمارا کلچر یہ خاندانی نظام، یہ سب بےکار چیزیں ہیں، کیوں ایک شخص کے ساتھ قید کو ہر زندگی گزاری جائے، انسان آزاد پیدا ہوا ہے وہ جہاں جس مرضی کے ساتھ جب جیسے جس حال میں رہے، ایک سے دل بھر گیا تو ٹھیک ہے دونوں فریقیں کسی دوسرے کے ساتھ تعلقات رکھ لیں، آزادی ہونی چاہیئے، وغیرہ وغیرہ لیکن ان سب سے بھی دال نہیں گلی اور دنیا کے کئی عیسائی خاندان بھی ( یعنی اس نظام کے بنانے والوں کے اپنے لوگ بھی) ان باتوں سے قطعی طور پر نالاں اور ان کے خلاف تھے تو ایک نیا حربہ آزمایا گیا۔ اب کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب بڑی خراب چیز ہے، یہ روک ٹوک کرتی ہے اسی کو نکال کر باہر پھینک دو اور یہ وہ فتنہ ہے جس نے سیکیولرازم کو جنم دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے کُل مسلم ممالک اٹھا کر دیکھ لیں، زیادہ تر ان سب اقدار و روایات کو اپنا چکے ہیں، اکثریت اس سانپ سے ڈسی جا چکی ہے، مراکش کو دیکھ لیں، تیونس میں سر ڈھانپنے کی پابندی تک لگ چکی تھی، عرب امارات کی حالت دیکھ لیں، دبئی کے ہوٹلوں میں کیا ہے جو نہیں ہوتا، بہت کم مسلم ممالک بچے ہیں جو اب تک ایک دیوار بنے ہوئے ہیں اور ان میں بھی اکثریت کے اڑنے کی وجہ ان کی عوام ہے، اور ان سب میں بھی واحد ایک پاکستان ہے جس کا متوسط طبقہ سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے اس معاملے میں، اور اسی وجہ سے سب سے زیادہ یلغار بھی پاکستان پر ہی ہو رہی ہے؛ اور اس کے ساتھ تمام اقوام مغرب کی سرتوڑ کوشش ہے کہ مسلمانان عالم کو اسی جمہوریت اور مست مئے ذوق تن آسانی رکھا جائے اور ان کو میدان میں لائے بغیر ان کو فتح کیا جائے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر یہ مسلمان جاگ گئے تو پھر ان کو اپنی سالمیت کے شدید لالے پڑ جائیں گے جیسے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ:
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات!
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات!
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
یہ کیا ہے جو موسیقی کے مقابلے ہوتے ہیں اور اس کو فن کا نام دیا جاتا ہے، امن کی آشا کے نام پر مراثی اور گلوکار اور گویّے ایک ملک سے دوسرے اور دوسرے سے ادھر آتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں یہ لکیر بس زمین پر ٹھیک ہے، دلوں میں نہیں ہے، کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ اس لکیر ہی ختم کر دو جس میں بڑے بڑے “شرفاء اور معززین اور پولیٹیکل لیڈرز” شامل ہیں۔ یہ کیا بیہودگی اور بےغیرتی کی باتیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ امریکہ بہت بڑا طاقتور ہے اس لیے خیر اسی میں ہے کہ سے خطرہ مول نہیں لیا جائے، جو وہ کہتا ہے کرتے رہو۔
آج کتنے نوجوان ہیں جو موسیقار، گلوکار اور راک سٹار بننا چاہتے ہیں، اور کتنے ہیں جو خالد بن ولید رضی اللہ تعلیٰ عنہ، موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد یا صلاح الدین ایوبی بننا چاہتے ہیں۔ ہم نے ان کی کہانیاں تک بھلا دیں، ایسا سلوک کیا کے داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ کیا اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو اپنے اس ملک کی باگ دوڑ دے گا
اس سب کا حل کیا ہے؟ جیسا کے پہلے بتایا گیا کہ ان تمام نظاموں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ یہ نظام انسان کی تخلیق تھے اور انسان اپنی عقل میں بہت ناقص ہے لہٰذا جب تک ممالک انسان کے نظام کو اپنائیں گے تب تک کچھ نہیں ہو سکتا، حل یہ ہے کہ انسان کے نظاموں کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کے نظام کو نافذ کیا جائے اور یہ باور کیا جائے کے حاکمیت انسانوں کی نہیں بلکہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، وہ نظام کیا ہے اور اس کو کیسا ہونا چاہیے؟ اس کے لیے سب سے بڑی اور بہترین مثال حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی ہے، آدھی دنیا پر خلافت قائم تھی لیکن ہر جگہ عدل اور انصاف اور مساوات کا دور دورہ تھا، کہیں کسی کے حقوق کی پامالی قطعی طور پر ناممکن تھی چاہے وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو یا کوئی بھی ہو، حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی، نظام صرف اللہ تعالیٰ کا چلے گا۔ ایک ادنیٰ سے قاصد سے لیکر گورنر اور خلیفہ وقت تک سب پہلے اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں پھر کسی اور کو جوابدہ ہیں اور اس نظام کو خلافت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جب تک یہ نظام نافذ نہیں ہو جاتا، ہر طرف ایسی ہی ہیجان اور اضطراب کی کیفیت قائم رہے گی، ایسے ہی بےسکونی پوری دنیا کو اپنے گرد گھیرے رہے گی اور قوموں کے سب سے رذیل لوگ اور چور اور اچکے اپنی قوموں کی نمائندگی کرتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان اور پاکستان کی عوام کا حامی وناصر ہو، اور دنیا میں خلافت کے نظام کو قائم فرمائے اور استحقام بخشے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت اور مغفرت کی لپیٹ میں لیکر اپنے فضل کی بارش ہم سب پر برسائے۔ آمین

خلافت کا زمانہ

0 تبصرہ جات

خلافت کا زمانہ

بالآخر اس بحث میں خلافت کے زمانہ کا سوال پیدا ہوتا ہے سو ظاہر ہے کہ جب خلافت خدا کا ایک انعام ہے اور وہ نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے آتی ہے تو لازماً اس کے قیام کی دو ہی شرطیں سمجھی جائیں گی۔ اول یہ کہ خدائے حکیم و علیم کے علم میں مومنوں کی جماعت میں اس کی اہلیت رکھنے والے لوگ موجود ہوں اور دوسرے یہ کہ نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے اس کی ضرورت باقی ہو۔ اور چونکہ یہ دونوں باتیں خدا تعالیٰ کے مخصوص علم سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کسی دور میں خلافت کے زمانہ کا علم بھی صرف خدا کو ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نبوت کے متعلق فرماتا ہے ’’ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ‘‘ یعنی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے سپرد کرے گا۔ اور چونکہ خلافت کا نظام بھی نبوت کے نظام کی فرع ہے اس لئے اس کے لئے بھی یہی قانون نافذ سمجھا جائے گا جو اس لطیف آیت میں نبوت کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ اب چونکہ ’حیث‘ کا لفظ جو اس آیت میں رکھا گیا ہے ۔ عربی زبان میں ظرف مکان اور ظرف زمان دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اس لئے اس آیت کے مکمل معنی یہ بنیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس بات کو بہتر جانتا ہے کہ نبوت اور اس کی اتباع میں خلافت پر کسی شخص کو فائز کرے اور پھر کس عرصہ تک کے لئے اس انعام کو جاری رکھے؟ پس جب تک کسی الٰہی جماعت میں خلافت کی اہلیت رکھنے والے لوگ موجود رہیں گے اور پھر جب تک خدا کے علم میں کسی الٰہی جماعت کے لئے نبوت کے کام کی تکمیل اور اس کی تخمریزی کے نشوونما کی ضرورت باقی رہے گی خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور اگر کسی وقت ظاہری اور تنظیمی خلافت کا دور دبے گا تو اس کے مقابل پر اسلام کی خدمت کے لئے روحانی خلافت کا دور ابھر آئے گا اور اس طرح انشاء اللہ اسلام کے باغ پر کبھی دائمی خزاں کا غلبہ نہیں ہوگا۔

خلافت

0 تبصرہ جات

خلافت کی برکات

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خلافت کا نظام ایک بہت ہی مبارک نظام ہے جس کے ذریعہ آفتاب نبوت کے ظاہری غروب کے بعد اللہ تعالیٰ ماہتاب نبوت کے طلوع کا انتظام فرماتا ہے۔ اورالٰہی جماعت کواس دھکے کے اثرات سے بچا لیتا ہے جو نبی کی وفات کے بعد نوزائیدہ جماعت پر ایک بھاری مصیبت کے طور پر وارد ہوتا ہے۔ نبی کا کام جیسا کہ قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے تبلیغ ہدایت کے ساتھ ساتھ مومنوں کی جماعت کی دینی تعلیم ، ان کی روحانی و اخلاقی تربیت اور ان کی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے۔ اور یہ سارے کام نبی کی وفات کے بعد خلیفہ وقت کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں جس کا وجود جماعت کو انتشار سے بچاکر انہیں ایک مضبوط لڑی میں پروئے رکھتا ہے ۔ علاوہ ازیں نبی کا وجود جماعت کے لئے محبت اور اخلاص کے تعلقات کا روحانی مرکز ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ اتحاد اور یک جہتی اور باہمی تعاون کا زریں سبق سیکھتے ہیں اور خلیفہ کا وجود اس درس وفا کو جاری اور تازہ رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے جماعت کے وجود کو جو ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی وجہ سے خلیفہ کے وجود کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ایک بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے اور اسے انتہائی اہمیت دی ہے اورجماعت میں انتشار پیدا کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’من شَذَّ شُذَّ فی النار ‘‘ ۔یعنی جو شخص جماعت سے کٹتا ہے اور اس کے اندر تفرقہ پیدا کرتا ہے وہ اپنے لئے آگ کا راستہ کھولتا ہے۔ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ’’علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء المھدیین‘‘ یعنی اے مسلمانو! تم پر تمام دینی امور میں میری سنت پر عمل کرنا اور میرے بعد میرے خلفاء کے زمانہ میں ان کی سنت پر عمل کرنا بھی واجب ہوگا۔ کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہونگے۔ پس خلافت کا نظام ایک نہایت ہی بابرکت نظام ہے جس کے ذریعہ جماعتی اتحاد اور مرکزیت کے علاوہ جس کی ہر نوزائیدہ جماعت کو بھاری ضرورت ہوتی ہے نبوت کا نور جماعت کے سر پر جلوہ افروز رہتاہے اور یہ ایک بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی برکت ہے۔

خلافت کے اختیارات

اگلا سوال خلافت کے اختیارات سے تعلق رکھتا ہے ۔ سو اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے بنیادی نکتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خلافت ایک روحانی نظام ہے جس میں حکومت کا حق اوپر سے نیچے کو آتا ہے۔ اور چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کی فرع ہے اور دوسری طرف شریعت ہمیشہ کے لئے مکمل ہو چکی ہے اس لئے جس طرح شریعت کے حدود کے اندر اندر نبوت کے اختیارات وسیع ہیں اسی طرح شریعت و سنت نبوت کی حدود کے اندر اندر خلافت کے اختیارات بھی وسیع ہیں یعنی ایک خلیفہ اسلامی شریعت کی حدود کے اندر اندر اور اپنے نبی متبوع کی سنت کے تابع رہتے ہوئے الٰہی جماعت کے نظم و نسق میں وسیع اختیارات رکھتا ہے۔ موجود ہ زمانہ کے جمہوریت زدہ نوجوان اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ایک واحد شخص کے اختیارات کو اتنی وسعت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ اول تو خلافت کسی جمہوری اور دنیوی نظام کا حصہ نہیں بلکہ روحانی اور دینی نظام کا حصہ ہے جس کا حق خدا تعالیٰ کے ازلی حق کا حصہ بن کر اوپر سے نیچے کوآتا ہے اور خدا کا سایہ خلفاء کے سر پر رہتا ہے ۔ دوسرے جب ایک خلیفہ کے لئے شریعت کی آہنی حدود معین ہیں اور نبی متبوع کی سنت کی چاردیواری بھی موجود ہے تو ان ٹھوس قیود کے ماتحت اس کے اختیارات کی وسعت پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ نبی کے بعد خلیفہ کا وجود یقیناً ایک نعمت اور رحمت ہے اور رحمت کی وسعت بہرحال برکت کا موجب ہوتی ہے نہ کہ اعتراض کا۔ بایں ہمہ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ چونکہ خلیفہ کے انتخاب میں بظاہر لوگوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے اس لئے اسے تمام اہم امور میں مومنوں کے مشورہ سے کام کرنا چاہئے۔ بے شک وہ اس بات کا پابند نہیں کہ لوگوں کے مشورہ کو ہر صورت میں قبول کرے لیکن وہ مشورہ حاصل کرنے کا پابند ضرور ہے تا کہ اس طرح ایک طرف تو جماعت میں ملی اور دینی سیاست کی تربیت کا کام جاری رہے اور دوسری طرف عام کاموں میں مشورہ قبول کرنے سے جماعت میں زیادہ بشاشت کی کیفیت پیدا ہوا۔ لیکن خاص حالات میں ’’فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکّلْ عَلَی اللّہ ‘‘ کا مقام بھی قائم رہے۔یہ ایک بہت لطیف فلسفہ ہے ’’وَلکِن قَلِیلاً مَا یَتَفَکّرُون‘‘۔

خلافت سے عزل کا سوال

جن لوگوں نے خلافت کے مقام کو نہیں سمجھا وہ بعض اوقات اپنی نادانی سے خلیفہ کے عزل کے سوال میں الجھنے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کے جمہوری نظاموں کی طرح خلافت کو بھی ایک دنیوی نظام خیال کر کے حسب ضرورت خلیفہ کے عزل کا رستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک انتہادرجہ کی جہالت کا خیال ہے جو خلافت کے حقیقی مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔حق یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خلافت ایک روحانی نظام ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص تصرف کے ماتحت نبوت کے تتمہ اور تکملہ کے طور پر قائم کیا جاتا ہے۔ اور گو اس میں مصلحت الٰہی سے بظاہر لوگوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے مگر حقیقۃً وہ خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے ماتحت قائم ہوتا ہے اور پھر وہ ایک اعلیٰ درجہ کا الٰہی انعام بھی ہے۔ پس اس کے متعلق کسی صورت میں عزل کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا ۔ اسی لئے حضرت عثمانؓ کی خلافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ :
’’ خدا تجھے ایک قمیص پہنائے گا مگر منافق لوگ اسے اتار نا چاہیں گے لیکن تم اسے ہر گز نہ اتارنا‘‘اس مختصر ارشاد میں خلافت کے بابرکت قیام اور عزل کی ناپاک تحریک کا سارا فلسفہ آ جاتا ہے۔ پھر نادان لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر باوجود اس کے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اس کے عزل کا سوال اٹھ سکتا ہے تو پھر نعوذباللہ ایک نبی کے عزل کا سوال کیوں نہیں اٹھ سکتا؟ پس حق یہی ہے کہ خلفاء کے عزل کاسوال بالکل خارج از بحث ہے اور انبیاء کی طرح ان کے مزعومہ عزل کی ایک ہی صورت ہے کہ خدا انہیں موت کے ذریعہ دنیا سے اٹھا لے۔ خوب یاد رکھو کہ خلافت کے عزل کا سوال خلافت کے قیام کی فرع ہے نہ کہ ایک مستقل سوال۔ پس اگر یہ ایک حقیقت ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اس نے باربار اعلان فرمایا ہے اور جیسا کہ ہمارے آقا ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ کے معاملہ میں صراحت فرمائی ہے تو عزل کا سوال کسی سچے مومن کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اسلام تو اس ضبط و نظم کا مذہب ہے کہ اس نے دنیوی حکمرانوں کے متعلق بھی جو محض لوگوں کی رائے سے یا ورثہ کی صورت میں قائم ہوتے ہیں تعلیم دی ہے کہ ان کے خلاف سر اٹھانے اور ان کے عزل کی کوشش کرنے کے درپے نہ ہو ’’ اِلاّ اَنْ تَروا کْفراٰ بَوا حاً‘‘(سوائے اس کے کہ تم ان کے رویہ میں خدائی قانون کی صریح بغاوت پاؤ)۔ تو کیا وہ خدا کے بنائے ہوئے خلفاء اور نبی کے مقدس جانشینوں کے متعلق عزل کی اجازت دے سکتا ہے؟ھَیھَاتَ ھَیھَاتَ بِمَا تُومَرُون۔

خلافت کی علامات

0 تبصرہ جات

خلافت کی علامات

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلافت کی علامات کیا ہیں جس سے ایک سچے خلیفہ کو شناخت کیا جا سکے؟ سو جاننا چاہئے کہ جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ برحق کی دو بڑی علامتیں ہیں۔ ایک علامت وہ ہے جو سورہ نور کی آیت استخلاف میں بیان کی گئی ہے یعنی:
(لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم و لیبدلنھم من بعد خوفھم امناً۔ یعبدوننی لا یشرکون بی شیئاً)
یعنی ’’سچے خلفاء کے ذریعہ خدا تعالیٰ دین کی مضبوطی کا سامان پیدا کرتا ہے اور مومنوں کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دیتا ہے۔ یہ خلفاء صرف میری ہی عبادت کرتے ہیں اور میرے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہیں ٹھہراتے‘‘۔ پس جس طرح ہر درخت اپنے ظاہری پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سچا خلیفہ اپنے اس روحانی پھل سے پہچانا جاتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ ازل سے مقدر ہوچکا ہے۔
دوسری علامت حدیث میں بیان کی گی ہے جو یہ ہے کہ استثنائی حالات کو چھوڑ کر ہر خلیفہ کا انتخاب مومنوں کی اتفاق رائے یا کثرت رائے سے ہونا چاہئے کیونکہ گو حقیقۃً تقدیر خدا کی چلتی ہے مگر خدا نے اپنی حکیمانہ تدبیر کے ماتحت خلفاء کے تقرر میں بظاہر مومنوں کی رائے کا بھی دخل رکھا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے تعلق میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ (یدفع اللہ و یأبی المومنون) یعنی نہ تو خدائی تقدیر ابوبکرؓ کے سوا کسی اور کو خلیفہ بننے دے گی اور نہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اور کی خلافت پر راضی ہوگی۔ پس ہر خلیفہ برحق کی یہ دوہری علامت ہے کہ (۱) وہ مومنوں کے انتخاب سے قائم ہو اور (۲) خدا تعالیٰ اپنے فعل سے اس کی نصرت اور تائید میں کھڑا ہو جائے اور اس کے ذریعہ دین کو تمکنت پہنچے۔ اس کے سوا بعض اور علامتیں بھی ہیں مگر اس جگہ اس تفصیل کی گنجائش نہیں۔

قائدؒ پاکستان میں خلافت کا نظام چاہتے تھے

0 تبصرہ جات



خلافت کا قیام

0 تبصرہ جات

خلافت کا قیام

چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کی فرع اور اور اس کا تتمہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے قیام کو نبوت کی طرح اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تا کہ خدا کے علم میں جو شخص بھی حاضر الوقت لوگوں میں سے اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہو وہی مسند خلافت پر متمکن ہو سکے۔ البتہ چونکہ نبی کی بعثت کے بعد مومنوں کی ایک جماعت وجود میں آ چکی ہوتی ہے اور وہ نبوت کے فیض سے تربیت یافتہ بھی ہوتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ خلافت کے انتخاب میں مومنوں کو بھی حصہ دار بنا دیتا ہے تا کہ وہ اس کی اطاعت بجا لانے اور اس کے ساتھ تعاون کرنے میں زیادہ شرح صدر محسوس کریں۔ اس طرح خلیفہ کا انتخاب ایک عجیب وغریب مخلوط قسم کا رنگ رکھتا ہے کہ بظاہر مومن انتخاب کرتے ہیں مگر حقیقۃً خدا کی تقدیر پوری ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ مومنوں کے دلوں پر تصرف فرما کر ان کی رائے کو اہل شخص کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں ہر جگہ خلفاء کے تقرر کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور باربار فرمایا ہے کہ خلیفہ میں بناتا ہوں۔ اور اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے متعلق حدیث میں فرماتے ہیں کہ میرے بعد خدا اورمومنوں کی جماعت ابوبکرؓ کے سوا کسی اور شخص کی خلافت پر راضی نہیں ہونگے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی رسالہ الوصیت میں یہی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے خود حضرت ابوبکرؓ کو کھڑا کر کے مسلمانوں کی گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیا اور حضرت ابوبکرؓ کی مثال پر خود اپنے متعلق بھی فرماتے ہیں کہ میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو خدا کی دوسری قدرت کا مظہر ہونگے۔ ان حوالوں سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ گوبظاہر خلافت کے تقرر میں مومنوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے لیکن حقیقۃً تقدیر خدا کی چلتی ہے۔

خلافت کی ضرورت

0 تبصرہ جات

خلافت کی ضرورت

دوسرا سوال خلافت کی ضرورت کا ہے یعنی نظام خلافت کی ضرورت کس غرض سے پیش آتی ہے؟۔ سو اس کے متعلق جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت و دانائی کے ماتحت ہوتا ہے۔ چونکہ اس کے قانون طبعی کے ماتحت انسان کی عمر محدود ہے لیکن اصلاح کا کام لمبے زمانہ کی نگرانی اور تربیت چاہتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے نبوت کے بعد خلافت کا نظام مقرر فرمایا ہے تا کہ نبی کی وفات کے بعد خلفاء کے ذریعہ اس کے کام کی تکمیل ہو سکے ۔ گویا جو تخم نبی کے ذریعہ بویا جاتا ہے اسے خدا تعالیٰ خلفاء کے ذریعہ اس حد تک تکمیل کو پہنچا نے کا انتظام فرماتا ہے کہ وہ ابتدائی خطرات سے محفوظ ہو کر ایک مضبوط پودے کی صورت اختیار کر لے۔ ا س سے ظاہر ہے کہ خلافت کا نظام دراصل نبوت کے نظام کی فرع اور اس کا تتمہ ہے۔ اسی لئے ہمارے آقا ﷺ حدیث میں فرماتے ہیں کہ ہر نبوت کے بعد خلافت کا نظام قائم ہوتا ہے۔

خلافت کی تعریف

0 تبصرہ جات

خلافت کی تعریف

سب سے اول نمبر پر خلافت کی تعریف کا سوال ہے یعنی یہ کہ خلافت سے مراد کیا ہے اور نظام خلافت کس چیز کا نام ہے؟ سو جاننا چاہئے کہ خلافت ایک عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی کسی کے پیچھے آنے یا کسی کو قائم مقام بننے یا کسی کا نائب ہو کر اس کی نیابت کے فرائض سرانجام دینے کے ہیں۔ اور اصطلاحی طور پر خلیفہ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اول وہ ربانی مصلح جوخدا کی طرف سے دنیا میں کسی اصلاحی کام کے لئے مامور ہوکر مبعوث کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس معنی میں تمام انبیاء اور رسول خلیفۃ اللہ کہلاتے ہیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے نائب ہونے کی حیثیت میں کام کرتے ہیں اور انہی معنوں میں قرآن شریف نے حضرت آدم ؑ اور حضرت داؤد ؑ کو’’ خلیفہ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ دوم وہ برگزیدہ شخص جو کسی نبی یا روحانی مصلح کی وفات کے بعد اس کے کام کی تکمیل کے لئے اس کا قائم مقام اور اس کی جماعت کا امام بنتا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ؑ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما خلیفہ بنے۔

اسلام میں خلافت کا نظام

0 تبصرہ جات
 اسلام میں خلافت کا نظام
خلافت کا مضمون موٹے طور پر مندرجہ ذیل شاخوں میں تقسیم شدہ ہے۔ (۱) خلافت کی تعریف (۲) خلافت کی ضرورت (۳) خلافت کا قیام (۴) خلافت کی علامات (۵) خلافت کے اختیارات (۶) خلافت سے عزل کا سوال اور (۷) خلافت کا زمانہ۔ میں ان سب کے متعلق مختصر فقرات میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ واللہ الموفق والمستعان۔

شریعت کے مقررکردہ فطری حقوق

0 تبصرہ جات
 شریعت کے مقررکردہ فطری حقوق

تاليف : محمد بن صالح العثيمين
ترجمہ : ابو المکرم عبد الجلیل
نظر ثانی : شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی - محمد اقبال عبد العزیز
اصدارات : دفتر تعاون برائے دعوت وتوعية الجاليات سلطانہ رياض
مختصر بیان: شریعت اسلامى کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اسمیں عدل وانصاف کا خاص خیال رکھا گیا ہے’اورعدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہرصاحب حق کو اسکا حق دیا جائے اورہر صاحب منزلت کو اسکا مقام عطا کیا جائے.زير مطالعہ کتاب میں شیخ محمد بن صالح العثیمین -رحمہ اللہ- نے چند ایسے حقوق ذکر کئے ہیں جو تقاضائے فطرت کے موافق اور کتاب وسنت سے ثابت ہیں ’ جنکا جاننا اور اسکے مطابق عمل کرنا انسان کیلئے انتہائی ضروری ہے’اور وہ حقوق مندرجہ ذیل ہیں:1 -اللہ تعالى کے حقوق 2- نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے حقوق 3- والدین کے حقوق 4-اولاد کے حقوق 5- رشتہ داروں کے حقوق 6- میاں بیوى کے حقوق 7- حکام اور رعایا کے حقوق 8-پڑوسیوں کے حقوق 9- عام مسلمانوں کے حقوق 10- غیر مسلموں کے حقوق.
Pak Urdu Installer

فیس بک پر ہمارا صفہ

اپنے فیس بک پر لکھیں

مہمان ممالک

free counters