نظام حکومت؟ خلافت یا جمہوریت
دنیا کے وجود میں آنے کے بعد اس دنیا میں رہنے والے انسانوں نے کئی
حکومتی اور سیاسی نظام تخلیق کئے اور اختیار کیے، لیکن ہر نظام ایک مدت کے
بعد اپنی موت آپ ہی مر گیا۔ ان سیاسی نظاموں کے تخلیق کرنے کی وجہ یہ تھی
کہ انسان نے حاکمیت اپنے سر لے لی اور یہ مائنڈ سیٹ بنا لیا کہ افراد کی
طاقت سے بالا اور زبردست ہوتی ہے، اور ان تمام سیاسی نظاموں کے برباد ہونے
کی سب سے بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ انسان کے بنائے ہوئے نظام تھے۔
جب تک اس دنیا میں خلافت تھی اور جن جن جگہوں پر خلافت نافذ تھی اور
مسلمانوں کی حکومت تھی، تب تک دنیا ان تمام جگہوں پر بہت پرسکون اور عدل و
مساوات کا گہوارہ تھی، کیونکہ علاقہ کا گورنر ہو یا علاقے کا خلیفہ ہو، وہ
اللہ تعالیٰ کو جواب دہ تھا۔ جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی اور صرف خلافت
کا نام رہ گیا، تب سے دنیا میں گڑ بڑ شروع ہوئی کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کے
بنائے ہوئے نظام میں انسانی مداخلت شروع ہو گئی تھی جس کی سب سے بڑی مثال
گریٹ اوٹومان ایمپائر (خلافت عثمانیہ) ہے لیکن پھر بھی نام خلافت کا تھا
اور حالات اتنے خراب نہیں تھے۔
اس کے بعد کئی نظام آئے، بادشاہت آئی اور ختم ہو گئی، پھر کمیونزم آیا
اور اپنی موت آپ مر گیا۔ بیچ میں کئی نظام آتے رہے اور اپنی موت آپ مرتے
رہے تاہم بنیادی عقیدہ یہی ہے کہ کمیونزم کی موت کے بعد جمہوریت آئی جس کا
مرکز لوگ تھے، جو لوگ چاہیں وہی قانون بن جائے گا اور میرے ذاتی خیال میں
جمہوریت کا ہی کا ایک اور تلسلسل سیکلولرازم کی شکل میں سامنے آیا ہوا ہے؛
اب ایک اور نظام سامنے آ رہا ہے آہستہ آہستہ جس کو ہم عرف عام میں دجالی
نظام کہتے ہیں اور دنیا کی زبان میں نیو ورلڈ آرڈر (وَن ٹو روول آل) کے
نام سے جانا جاتا ہے۔
اس تمام صورتحال میں جو سب سے بڑی برائی رہی، وہ اندھی تقلید ہے۔ جب
کمیونزم اپنے عروج پر تھا تو ہر طرف سے آوازیں آتی تھیں کمیونزم کے بغیر
ملک نہیں چلتا، پھر کمیونزم ختم ہو گیا اور جمہوریت سامنے آئی تو اب ہر
جگہ سے آوازیں آتی ہیں جمہوریت کے بغیر ملک نہیں چلتا، اور اب ایک گروہ ہے
جو شرپسند اور اسلام دشمن عناصر پر مبنی ہے جو کہتے ہیں سیکولرازم کے بغیر
ملک نہیں چلتا۔
جو نظام ختم ہو گئے، وہ تو گئے لیکن جو موجود ہیں وہ تمام کے تمام
اسلامی احکامات سے قطعی طور پر تضاد رکھتے ہیں اور یہ کسی مسلمان ریاست کا
قطعی شیوہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک ایسے نظام حکومت کو اپنے ملک میں نافذ
کرے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسلام کے طریقوں سے قطعی طور پر تضاد
رکھتے ہیں تاہم چونکہ پاکستان اور دنیا کے کئی مسلم ممالک میں جمہوریت ہی
نافذ ہے، اسی لیے زیادہ بات اور زیادہ توجہ اسی نظام حکومت پر مرکوز رکھی
جائے گی ان شاء اللہ۔
اگر کمیونزم کو دیکھا جائے تو اس میں لوگ رائے نہیں دے سکتے، اقلیتوں کو
کچھ گھاس نہیں ڈالی جاتی، وزراء کو حکومت کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور جو
حکومت فیصلہ کرے وہ حتمی ہے، یعنی اگر حاکم وقت نے کوئی نہایت بیہودہ اور
غلط فیصلہ کیا ہے تو اس پر کوئی چوں چراں نہیں کر سکتا جو کہ بالکل غلط
ہے۔
سیکلور ازم میں ہر کسی کو مکمل شخصی آزادی حاصل ہے، یعنی کوئی نماز پڑھے
نہ پڑھے، کسی کے ساتھ جس طرح کا تعلق رکھے، جس قسم کی حرکات و سکنات
اختیار کرے اور جو مرضی کرتا رہے، اس کی زندگی ہے اس کا اپنا اختیار ہے،
ریاست یا کوئی بھی اس کو کچھ نہیں کہہ سکتا، بس قانون کی پاسداری کرتا رہے۔
مثال کے طور پر ایک شخص شراب بیشک پیے لیکن شراب پی کر گاڑی نہیں چلائے،
سگنل نہیں توڑے اوور سپیڈ نہیں ہو وغیرہ وغیرہ اور یہ تو قطعی طور پر غلط
ہے۔
جمہوریت میں رائے کا حق اور فیصلہ کرنے کا حق عوام کو حاصل ہے، عوام
اپنا نمائندہ چنتے ہیں اور عوام کی رائے کو کوئی چلینج نہیں کر سکتا یعنی
اگر عوام کی اکثریت بدفعلی اور غلط روایات اور اقدار پر عمل کرتی ہے، اور
وہ اسی وجہ سے ایک حق پر ڈٹے ہوئے شخص کو رد کر کے ایک غلط آدمی اپنے لیے
چن لیتی ہے تو یہ بالکل جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔۔۔ یہ بھی بالکل
غلط ہے۔
اگر جمہوریت کا اسلامی احکامات و تعلیمات سے موازنہ کیا جائے تو معلوم
ہوتا ہے کہ اسلام میں طاقت کا سرچشمہ اور مرکز اللہ تعالیٰ ہے جبکہ جمہوریت
میں طاقت کا مرکز عوام ہیں۔ اسلام میں حق پر ڈٹا رہنے والا ہزاروں جھوٹوں
پر غالب ہے جبکہ جمہوریت میں جس کے زیادہ ووٹ ہیں، وہ غالب ہے اور اس کا
مظاہرہ پچھلے کئی برس سے مسلسل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہی نہیں، اسلام کہتا
ہے کہ اگرچہ حق پر ہونے والے قلیل ہوں اور تعداد میں کم ہوں لیکن حق کا
ساتھ دینا لازم ہے، جبکہ جمہوریت میں اکثریت جو کہتی ہے، اور جس کا پلڑہ
تعداد میں بھاری ہوتا ہے اگرچہ جھوٹ اور غبن اور بے ایمانی اس میں ملی ہوئی
ہو، فیصلہ اسی کے حق میں ہوتا ہے اور وہی مسند اقتدار پر براجمان ہوتا ہے۔
جمہوریت کے بارے میں مفکر پاکستان اور حکیم الامت، علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلسِ ملت ہو یا پریوز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر!
تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!
میری رائے کے مطابق اب موجودہ سیکلورازم اسی جمہوریت کا ایک تلسلسل ہے
جیسے ایک پودہ ہوتا ہے، وہ جب زمین میں چھوٹا رہتا ہے تو اس کی چھوٹی
چھوٹی شاخیں ہوتی ہیں، اور جب بڑھتا ہے تو اس کا حجم، اس کی شاخیں اور
گھیراؤ بھی بڑھ جاتا ہے، جمہوریت وہ چھوٹا پودہ تھا، اب جب وہ پودا درخت
بنا ہے تو سیکلورازم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جمہوریت وہ ناسور ہے جو آہستہ آہستہ ملک و ملت اور قوم کو اندر سے
کھوکھلا کرتا ہے۔ آج پاکستانی قوم کا حال دیکھیئے۔ آزادی جمہور کا آغاز
کمیونزم سے ہوا تھا، کمیونزم بہت بری چیز ہے، لوگ کچھ چوں چراں ہی نہیں کر
سکتے اس لیے ایک نیا نظام لایا جائے جس میں سب کو اپنی رائے دینے کا حق
حاصل ہو، اس کا نام جمہوریت ہے لیکن یہ ایک دھوکہ دہی کی بات تھی، اور اس
کا اصل کچھ اور تھا۔ مسلمانوں اور مسلم ممالک کو جمہوریت کی غلاظت میں لت
پت کرنے کے لیے جو ایک نقطہ سامنے لایا گیا، وہ بات اسلامی نظام سے لی گئی
تھی کہ ایک بدو نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعلیٰ عنہُ سے اٹھ کر سوال کیا اور
پوچھ گچھ کی لیکن یہ صرف ایک دھوکہ تھا، اصل کچھ اور تھا جو بعد میں آہستہ
آہستہ سامنے آیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ شخصی آزادی، انسان جو مرضی کرے اس
کو آزادی ہے، کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیئے، پھر عورتوں کی آزادی کا ایک
نیا رنگ سامنے لایا گیا، کہ عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا ہے، ان کو پردہ میں
بند کرکے نہیں رکھنا چاہیے، ان کی مرضی وہ جیسے چاہیں جس کے ساتھ چاہیں
رہیں، ان کو آزاد کیا جائے، پھر ہیومین رائٹس واچ، اور انسانی حقوق کی
علمبردار تنظیمیں اور این جی اوز کا تصور سامنے آیا، اس کے بعد ہمارا کلچر
یہ خاندانی نظام، یہ سب بےکار چیزیں ہیں، کیوں ایک شخص کے ساتھ قید کو ہر
زندگی گزاری جائے، انسان آزاد پیدا ہوا ہے وہ جہاں جس مرضی کے ساتھ جب جیسے
جس حال میں رہے، ایک سے دل بھر گیا تو ٹھیک ہے دونوں فریقیں کسی دوسرے کے
ساتھ تعلقات رکھ لیں، آزادی ہونی چاہیئے، وغیرہ وغیرہ لیکن ان سب سے بھی
دال نہیں گلی اور دنیا کے کئی عیسائی خاندان بھی ( یعنی اس نظام کے بنانے
والوں کے اپنے لوگ بھی) ان باتوں سے قطعی طور پر نالاں اور ان کے خلاف تھے
تو ایک نیا حربہ آزمایا گیا۔ اب کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب بڑی خراب چیز ہے،
یہ روک ٹوک کرتی ہے اسی کو نکال کر باہر پھینک دو اور یہ وہ فتنہ ہے جس نے
سیکیولرازم کو جنم دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے کُل مسلم ممالک اٹھا کر دیکھ لیں، زیادہ
تر ان سب اقدار و روایات کو اپنا چکے ہیں، اکثریت اس سانپ سے ڈسی جا چکی
ہے، مراکش کو دیکھ لیں، تیونس میں سر ڈھانپنے کی پابندی تک لگ چکی تھی، عرب
امارات کی حالت دیکھ لیں، دبئی کے ہوٹلوں میں کیا ہے جو نہیں ہوتا، بہت کم
مسلم ممالک بچے ہیں جو اب تک ایک دیوار بنے ہوئے ہیں اور ان میں بھی
اکثریت کے اڑنے کی وجہ ان کی عوام ہے، اور ان سب میں بھی واحد ایک پاکستان
ہے جس کا متوسط طبقہ سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے اس معاملے میں،
اور اسی وجہ سے سب سے زیادہ یلغار بھی پاکستان پر ہی ہو رہی ہے؛ اور اس کے
ساتھ تمام اقوام مغرب کی سرتوڑ کوشش ہے کہ مسلمانان عالم کو اسی جمہوریت
اور مست مئے ذوق تن آسانی رکھا جائے اور ان کو میدان میں لائے بغیر ان
کو فتح کیا جائے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر یہ مسلمان جاگ گئے تو
پھر ان کو اپنی سالمیت کے شدید لالے پڑ جائیں گے جیسے علامہ اقبال کہتے ہیں
کہ:
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات!
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات!
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
یہ کیا ہے جو موسیقی کے مقابلے ہوتے ہیں اور اس کو فن کا نام دیا جاتا
ہے، امن کی آشا کے نام پر مراثی اور گلوکار اور گویّے ایک ملک سے دوسرے اور
دوسرے سے ادھر آتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں یہ لکیر بس زمین پر ٹھیک
ہے، دلوں میں نہیں ہے، کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ اس لکیر ہی ختم کر دو جس میں
بڑے بڑے “شرفاء اور معززین اور پولیٹیکل لیڈرز” شامل ہیں۔ یہ کیا بیہودگی
اور بےغیرتی کی باتیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ امریکہ بہت بڑا طاقتور ہے اس لیے
خیر اسی میں ہے کہ سے خطرہ مول نہیں لیا جائے، جو وہ کہتا ہے کرتے رہو۔
آج کتنے نوجوان ہیں جو موسیقار، گلوکار اور راک سٹار بننا چاہتے ہیں،
اور کتنے ہیں جو خالد بن ولید رضی اللہ تعلیٰ عنہ، موسیٰ بن نصیر، طارق بن
زیاد یا صلاح الدین ایوبی بننا چاہتے ہیں۔ ہم نے ان کی کہانیاں تک بھلا
دیں، ایسا سلوک کیا کے داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ کیا اللہ تعالیٰ
ایسی قوم کو اپنے اس ملک کی باگ دوڑ دے گا
اس سب کا حل کیا ہے؟ جیسا کے پہلے بتایا گیا کہ ان تمام نظاموں کی
ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ یہ نظام انسان کی تخلیق تھے اور انسان
اپنی عقل میں بہت ناقص ہے لہٰذا جب تک ممالک انسان کے نظام کو اپنائیں گے
تب تک کچھ نہیں ہو سکتا، حل یہ ہے کہ انسان کے نظاموں کو ترک کر کے اللہ
تعالیٰ کے نظام کو نافذ کیا جائے اور یہ باور کیا جائے کے حاکمیت انسانوں
کی نہیں بلکہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، وہ نظام کیا ہے اور اس کو کیسا
ہونا چاہیے؟ اس کے لیے سب سے بڑی اور بہترین مثال حضرت عمر بن خطاب رضی
اللہ تعالیٰ عنہُ کی ہے، آدھی دنیا پر خلافت قائم تھی لیکن ہر جگہ عدل اور
انصاف اور مساوات کا دور دورہ تھا، کہیں کسی کے حقوق کی پامالی قطعی طور
پر ناممکن تھی چاہے وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو یا کوئی بھی ہو،
حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی، نظام صرف اللہ تعالیٰ کا چلے گا۔ ایک
ادنیٰ سے قاصد سے لیکر گورنر اور خلیفہ وقت تک سب پہلے اللہ تعالیٰ کو
جوابدہ ہیں پھر کسی اور کو جوابدہ ہیں اور اس نظام کو خلافت کے نام سے جانا
جاتا ہے۔
جب تک یہ نظام نافذ نہیں ہو جاتا، ہر طرف ایسی ہی ہیجان اور اضطراب کی
کیفیت قائم رہے گی، ایسے ہی بےسکونی پوری دنیا کو اپنے گرد گھیرے رہے گی
اور قوموں کے سب سے رذیل لوگ اور چور اور اچکے اپنی قوموں کی نمائندگی کرتے
رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان اور پاکستان کی عوام کا حامی وناصر ہو، اور
دنیا میں خلافت کے نظام کو قائم فرمائے اور استحقام بخشے۔ اللہ تعالیٰ
ہمیں اپنی رحمت اور مغفرت کی لپیٹ میں لیکر اپنے فضل کی بارش ہم سب پر
برسائے۔ آمین
0 تبصرہ جات:
Post a Comment