خلافت کا قیام
چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کی فرع اور اور اس کا تتمہ ہے اس لئے
اللہ تعالیٰ نے اس کے قیام کو نبوت کی طرح اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تا کہ
خدا کے علم میں جو شخص بھی حاضر الوقت لوگوں میں سے اس بوجھ کو اٹھانے کے
لئے سب سے زیادہ موزوں ہو وہی مسند خلافت پر متمکن ہو سکے۔ البتہ چونکہ
نبی کی بعثت کے بعد مومنوں کی ایک جماعت وجود میں آ چکی ہوتی ہے اور وہ
نبوت کے فیض سے تربیت یافتہ بھی ہوتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ خلافت کے
انتخاب میں مومنوں کو بھی حصہ دار بنا دیتا ہے تا کہ وہ اس کی اطاعت بجا
لانے اور اس کے ساتھ تعاون کرنے میں زیادہ شرح صدر محسوس کریں۔ اس طرح
خلیفہ کا انتخاب ایک عجیب وغریب مخلوط قسم کا رنگ رکھتا ہے کہ بظاہر مومن
انتخاب کرتے ہیں مگر حقیقۃً خدا کی تقدیر پوری ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ
مومنوں کے دلوں پر تصرف فرما کر ان کی رائے کو اہل شخص کی طرف مائل کر دیتا
ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں ہر جگہ خلفاء کے تقرر کو خدا تعالیٰ نے اپنی
طرف منسوب کیا ہے اور باربار فرمایا ہے کہ خلیفہ میں بناتا ہوں۔ اور اسی
حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے
متعلق حدیث میں فرماتے ہیں کہ میرے بعد خدا اورمومنوں کی جماعت ابوبکرؓ
کے سوا کسی اور شخص کی خلافت پر راضی نہیں ہونگے۔ اور حضرت مسیح موعود
علیہ السلام نے بھی رسالہ الوصیت میں یہی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت
ﷺ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے خود حضرت ابوبکرؓ کو کھڑا کر کے
مسلمانوں کی گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیا اور حضرت ابوبکرؓ کی مثال پر
خود اپنے متعلق بھی فرماتے ہیں کہ میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو خدا کی
دوسری قدرت کا مظہر ہونگے۔ ان حوالوں سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے
کہ گوبظاہر خلافت کے تقرر میں مومنوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے لیکن
حقیقۃً تقدیر خدا کی چلتی ہے۔
0 تبصرہ جات:
Post a Comment