اسلام علیکم

محترم مہمان آپ کا
urduyahoo.blogspot.com
پر آنے کا بہت بہت شکریہ
اس بلاگ میں آپ کو اگر کوئی غلطی نظر آئے یا اس کی بہتری کے لئے اگر کوئی تجویز بھی دینا چاہیں تو ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے
اور اگر آپ کوئی تحریر شائع کروانا چاہتےہیں تو آپ ہمیں ای میل کریں
ؑEmail : jinnah332@yahoo.com



خلافت

0 تبصرہ جات

خلافت کی برکات

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خلافت کا نظام ایک بہت ہی مبارک نظام ہے جس کے ذریعہ آفتاب نبوت کے ظاہری غروب کے بعد اللہ تعالیٰ ماہتاب نبوت کے طلوع کا انتظام فرماتا ہے۔ اورالٰہی جماعت کواس دھکے کے اثرات سے بچا لیتا ہے جو نبی کی وفات کے بعد نوزائیدہ جماعت پر ایک بھاری مصیبت کے طور پر وارد ہوتا ہے۔ نبی کا کام جیسا کہ قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے تبلیغ ہدایت کے ساتھ ساتھ مومنوں کی جماعت کی دینی تعلیم ، ان کی روحانی و اخلاقی تربیت اور ان کی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے۔ اور یہ سارے کام نبی کی وفات کے بعد خلیفہ وقت کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں جس کا وجود جماعت کو انتشار سے بچاکر انہیں ایک مضبوط لڑی میں پروئے رکھتا ہے ۔ علاوہ ازیں نبی کا وجود جماعت کے لئے محبت اور اخلاص کے تعلقات کا روحانی مرکز ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ اتحاد اور یک جہتی اور باہمی تعاون کا زریں سبق سیکھتے ہیں اور خلیفہ کا وجود اس درس وفا کو جاری اور تازہ رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے جماعت کے وجود کو جو ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی وجہ سے خلیفہ کے وجود کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ایک بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے اور اسے انتہائی اہمیت دی ہے اورجماعت میں انتشار پیدا کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’من شَذَّ شُذَّ فی النار ‘‘ ۔یعنی جو شخص جماعت سے کٹتا ہے اور اس کے اندر تفرقہ پیدا کرتا ہے وہ اپنے لئے آگ کا راستہ کھولتا ہے۔ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ’’علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء المھدیین‘‘ یعنی اے مسلمانو! تم پر تمام دینی امور میں میری سنت پر عمل کرنا اور میرے بعد میرے خلفاء کے زمانہ میں ان کی سنت پر عمل کرنا بھی واجب ہوگا۔ کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہونگے۔ پس خلافت کا نظام ایک نہایت ہی بابرکت نظام ہے جس کے ذریعہ جماعتی اتحاد اور مرکزیت کے علاوہ جس کی ہر نوزائیدہ جماعت کو بھاری ضرورت ہوتی ہے نبوت کا نور جماعت کے سر پر جلوہ افروز رہتاہے اور یہ ایک بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی برکت ہے۔

خلافت کے اختیارات

اگلا سوال خلافت کے اختیارات سے تعلق رکھتا ہے ۔ سو اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے بنیادی نکتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خلافت ایک روحانی نظام ہے جس میں حکومت کا حق اوپر سے نیچے کو آتا ہے۔ اور چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کی فرع ہے اور دوسری طرف شریعت ہمیشہ کے لئے مکمل ہو چکی ہے اس لئے جس طرح شریعت کے حدود کے اندر اندر نبوت کے اختیارات وسیع ہیں اسی طرح شریعت و سنت نبوت کی حدود کے اندر اندر خلافت کے اختیارات بھی وسیع ہیں یعنی ایک خلیفہ اسلامی شریعت کی حدود کے اندر اندر اور اپنے نبی متبوع کی سنت کے تابع رہتے ہوئے الٰہی جماعت کے نظم و نسق میں وسیع اختیارات رکھتا ہے۔ موجود ہ زمانہ کے جمہوریت زدہ نوجوان اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ایک واحد شخص کے اختیارات کو اتنی وسعت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ اول تو خلافت کسی جمہوری اور دنیوی نظام کا حصہ نہیں بلکہ روحانی اور دینی نظام کا حصہ ہے جس کا حق خدا تعالیٰ کے ازلی حق کا حصہ بن کر اوپر سے نیچے کوآتا ہے اور خدا کا سایہ خلفاء کے سر پر رہتا ہے ۔ دوسرے جب ایک خلیفہ کے لئے شریعت کی آہنی حدود معین ہیں اور نبی متبوع کی سنت کی چاردیواری بھی موجود ہے تو ان ٹھوس قیود کے ماتحت اس کے اختیارات کی وسعت پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ نبی کے بعد خلیفہ کا وجود یقیناً ایک نعمت اور رحمت ہے اور رحمت کی وسعت بہرحال برکت کا موجب ہوتی ہے نہ کہ اعتراض کا۔ بایں ہمہ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ چونکہ خلیفہ کے انتخاب میں بظاہر لوگوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے اس لئے اسے تمام اہم امور میں مومنوں کے مشورہ سے کام کرنا چاہئے۔ بے شک وہ اس بات کا پابند نہیں کہ لوگوں کے مشورہ کو ہر صورت میں قبول کرے لیکن وہ مشورہ حاصل کرنے کا پابند ضرور ہے تا کہ اس طرح ایک طرف تو جماعت میں ملی اور دینی سیاست کی تربیت کا کام جاری رہے اور دوسری طرف عام کاموں میں مشورہ قبول کرنے سے جماعت میں زیادہ بشاشت کی کیفیت پیدا ہوا۔ لیکن خاص حالات میں ’’فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکّلْ عَلَی اللّہ ‘‘ کا مقام بھی قائم رہے۔یہ ایک بہت لطیف فلسفہ ہے ’’وَلکِن قَلِیلاً مَا یَتَفَکّرُون‘‘۔

خلافت سے عزل کا سوال

جن لوگوں نے خلافت کے مقام کو نہیں سمجھا وہ بعض اوقات اپنی نادانی سے خلیفہ کے عزل کے سوال میں الجھنے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کے جمہوری نظاموں کی طرح خلافت کو بھی ایک دنیوی نظام خیال کر کے حسب ضرورت خلیفہ کے عزل کا رستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک انتہادرجہ کی جہالت کا خیال ہے جو خلافت کے حقیقی مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔حق یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خلافت ایک روحانی نظام ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص تصرف کے ماتحت نبوت کے تتمہ اور تکملہ کے طور پر قائم کیا جاتا ہے۔ اور گو اس میں مصلحت الٰہی سے بظاہر لوگوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے مگر حقیقۃً وہ خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے ماتحت قائم ہوتا ہے اور پھر وہ ایک اعلیٰ درجہ کا الٰہی انعام بھی ہے۔ پس اس کے متعلق کسی صورت میں عزل کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا ۔ اسی لئے حضرت عثمانؓ کی خلافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ :
’’ خدا تجھے ایک قمیص پہنائے گا مگر منافق لوگ اسے اتار نا چاہیں گے لیکن تم اسے ہر گز نہ اتارنا‘‘اس مختصر ارشاد میں خلافت کے بابرکت قیام اور عزل کی ناپاک تحریک کا سارا فلسفہ آ جاتا ہے۔ پھر نادان لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر باوجود اس کے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اس کے عزل کا سوال اٹھ سکتا ہے تو پھر نعوذباللہ ایک نبی کے عزل کا سوال کیوں نہیں اٹھ سکتا؟ پس حق یہی ہے کہ خلفاء کے عزل کاسوال بالکل خارج از بحث ہے اور انبیاء کی طرح ان کے مزعومہ عزل کی ایک ہی صورت ہے کہ خدا انہیں موت کے ذریعہ دنیا سے اٹھا لے۔ خوب یاد رکھو کہ خلافت کے عزل کا سوال خلافت کے قیام کی فرع ہے نہ کہ ایک مستقل سوال۔ پس اگر یہ ایک حقیقت ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اس نے باربار اعلان فرمایا ہے اور جیسا کہ ہمارے آقا ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ کے معاملہ میں صراحت فرمائی ہے تو عزل کا سوال کسی سچے مومن کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اسلام تو اس ضبط و نظم کا مذہب ہے کہ اس نے دنیوی حکمرانوں کے متعلق بھی جو محض لوگوں کی رائے سے یا ورثہ کی صورت میں قائم ہوتے ہیں تعلیم دی ہے کہ ان کے خلاف سر اٹھانے اور ان کے عزل کی کوشش کرنے کے درپے نہ ہو ’’ اِلاّ اَنْ تَروا کْفراٰ بَوا حاً‘‘(سوائے اس کے کہ تم ان کے رویہ میں خدائی قانون کی صریح بغاوت پاؤ)۔ تو کیا وہ خدا کے بنائے ہوئے خلفاء اور نبی کے مقدس جانشینوں کے متعلق عزل کی اجازت دے سکتا ہے؟ھَیھَاتَ ھَیھَاتَ بِمَا تُومَرُون۔

0 تبصرہ جات:

Pak Urdu Installer

فیس بک پر ہمارا صفہ

اپنے فیس بک پر لکھیں

مہمان ممالک

free counters