غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
امریکہ کے ایک سابق اٹارنی جنرل نے اعترافی بیان دیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے نہ کسی کو قتل اور نہ کسی پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اس بیان نے مجھے پھر قلم اٹھانے پر اکسایا حالانکہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا، کہا ،سنا گیا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور جمہوریت نے جس خاتون کو چھیاسی برس قید کی سزا دی ہو، اسے بے گناہ قرار دینے پر میں رمزے کلارک کو سلام پیش کرتا ہوں۔اس حق گوئی نے مجھے اپنے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی مردہ ضمیری پر فاتحہ خوانی کے بعد اس خلجان میں مبتلا کر دیا ہے کہ کیا یہ محض قوم کی ایک بیٹی کی جان و عزت کا معاملہ ہے یا ہماری قومی غیرت پر ایک سوالیہ نشان!
درخت اپنی جڑوں اور عمارتیں اپنی بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں۔ملک مخصوص جغرافیئے اور ثقافت کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں۔ لیکن کرہ ارض پر کچھ ایسے ملک بھی ہیں جو ایک نظریہ کی بنیاد پروجود میں آئے۔پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ملکوں میں ہوتا ہے۔اس کی اساس نظریہ پاکستان ہے۔ نظریہ پاکستان کی اساس دو قومی نطریہ ہے جبکہ دو قومی نظریہ کی اساس غیرت ہے۔
خلفائے راشدین کے دور میں جب اسلامی مملکت وسعت پذیر ہوئی تو ہندوستان پر فوج کشی کا معاملہ بھی زیر غور آیا لیکن جنگی حکمت عملی کے پیش نظر اسے مناسب خیال نہ کیا گیا۔ حضرت عمر فاروق کو بتایا گیا کہ سندھ کا ساحلی علاقہ بنجر ہے۔ اگر بڑا لشکر بھیجا گیا تو غذائی قلت کا شکار ہو جائے گا جبکہ چھوٹے لشکر کو ڈاکو ختم کر دیں گے۔
لیکن جب ایک مسلمان بیٹی کی عزت کا سوال آیا تو حجاج بن یوسف نے غیرت کو فوجی حکمت عملی پر ترجیح دیتے ہوئے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملے کا حکم دیا ۔ محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کرکے ہندوستان میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔
کیا یہ اساس اب بھی قائم ہے ؟
”جی نہیں۔” میرا یہ جواب شاید محب وطن پاکستا نیوں کو ناگوار گزرے۔لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی مردہ قوموں کی نشانی ہو تی ہے۔راجہ داہر کی قید میں ایک مسلمان لڑکی کا موازنہ بگرام جیل کی قیدی نمبر٦٥٠ سے کیجیئے۔اگر آپ اپنی فوجی اور قومی غیرت پر تھپڑ نہ محسوس کریں تو یہ بھی میرے مردہ قومیت کے تجزیئے کی تائید ہوگی۔
قیدی نمبر٦٥٠ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جسے ہر طرح کے تشدد اور ہر طرح کی ذلت کا نشانہ بنایا گیا۔اس ظلم کی نشاندہی ایک برطانوی صحافی نے کی ،مگر ظلم کی یہ داستان بھی لاپتہ افراد کی طرح پر اسرار طور پر گم ہوگئی۔قوم کی اس بیٹی کی ازیت اور ذلت کا ذمہ دار وہ حکمران ہیںجو” سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے تین کمسن بچون سمیت کراچی سے اغوا کرکے غیر ملکی ایجنٹوں کے حوالے کیا گیا۔
تاریخ اسلام میں اس سے بڑی بے غیرتی کی مثال تلاش کیجئے۔ شاید مل جائے ، مجھے نہیں ملی۔ غیرت کے نام پر شروع ہپونے والی محمد بن قاسم کی تحریک جسے قائداعظم نے منطقی انجام تک پہنچایا، کیا ڈاکٹر عافیہ کی عصمت کی ساتھ اپنی طبعی موت نہیں مر گئی؟اگر پاکستانی قوم کی غیرت ختم ہو گئی ہے تو نظریہ پاکستان کیسے قائم رہ سکتا ہے؟
قومی بے غیرتی کی ویسے تو کئی اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً ہمارے قبائلی علاقوں میں آئے دن ڈرون حملے! دوسرے ممالک کی طرف سے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی۔ اور ہمارے ارباب اختیار کی خاموشی!کسی غیر ملک کا اپنے فوجی اور ہیلی کاپٹر لے کر ہمارے ملک میںگھنٹوں آپریشن کرکے پنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا اور ہمیں کانوں کان خبر نہ ہونا، وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان اگر اسلام کے نام پر بنا ہے تو اس کے حکمرانوں میں اسلامی اقدار کی جھلک تونظر آنی چاہیئے۔
کچھ ماہ قبل وزیراعلیٰ سندھ کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ کراچی جیسے دوکروڑ آبادی والے شہر میں روزانہ چند لوگوں کا قتل کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے۔جبکہ حضرت عمر تو فرات کے کنارے کسی کتے کے بھوکے رہنے کو بھی چھوٹا واقعہ قرار نہیں دیتے۔
اس ملک پاکستان کو آپ درخت سے تشبیہہ دیں یا عمارت سے ، یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اس کی جڑیں بنیادیں اس حد تک کمزور ہو چکی ہیں کہ اس کا قائم رہنا کسی معجزے سے کم نہ ہوگا ۔اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی رحمت سے میرے اندازوں کوغلط فرمائے۔
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
امریکہ کے ایک سابق اٹارنی جنرل نے اعترافی بیان دیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے نہ کسی کو قتل اور نہ کسی پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اس بیان نے مجھے پھر قلم اٹھانے پر اکسایا حالانکہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا، کہا ،سنا گیا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور جمہوریت نے جس خاتون کو چھیاسی برس قید کی سزا دی ہو، اسے بے گناہ قرار دینے پر میں رمزے کلارک کو سلام پیش کرتا ہوں۔اس حق گوئی نے مجھے اپنے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی مردہ ضمیری پر فاتحہ خوانی کے بعد اس خلجان میں مبتلا کر دیا ہے کہ کیا یہ محض قوم کی ایک بیٹی کی جان و عزت کا معاملہ ہے یا ہماری قومی غیرت پر ایک سوالیہ نشان!
درخت اپنی جڑوں اور عمارتیں اپنی بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں۔ملک مخصوص جغرافیئے اور ثقافت کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں۔ لیکن کرہ ارض پر کچھ ایسے ملک بھی ہیں جو ایک نظریہ کی بنیاد پروجود میں آئے۔پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ملکوں میں ہوتا ہے۔اس کی اساس نظریہ پاکستان ہے۔ نظریہ پاکستان کی اساس دو قومی نطریہ ہے جبکہ دو قومی نظریہ کی اساس غیرت ہے۔
خلفائے راشدین کے دور میں جب اسلامی مملکت وسعت پذیر ہوئی تو ہندوستان پر فوج کشی کا معاملہ بھی زیر غور آیا لیکن جنگی حکمت عملی کے پیش نظر اسے مناسب خیال نہ کیا گیا۔ حضرت عمر فاروق کو بتایا گیا کہ سندھ کا ساحلی علاقہ بنجر ہے۔ اگر بڑا لشکر بھیجا گیا تو غذائی قلت کا شکار ہو جائے گا جبکہ چھوٹے لشکر کو ڈاکو ختم کر دیں گے۔
لیکن جب ایک مسلمان بیٹی کی عزت کا سوال آیا تو حجاج بن یوسف نے غیرت کو فوجی حکمت عملی پر ترجیح دیتے ہوئے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملے کا حکم دیا ۔ محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کرکے ہندوستان میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔
کیا یہ اساس اب بھی قائم ہے ؟
”جی نہیں۔” میرا یہ جواب شاید محب وطن پاکستا نیوں کو ناگوار گزرے۔لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی مردہ قوموں کی نشانی ہو تی ہے۔راجہ داہر کی قید میں ایک مسلمان لڑکی کا موازنہ بگرام جیل کی قیدی نمبر٦٥٠ سے کیجیئے۔اگر آپ اپنی فوجی اور قومی غیرت پر تھپڑ نہ محسوس کریں تو یہ بھی میرے مردہ قومیت کے تجزیئے کی تائید ہوگی۔
قیدی نمبر٦٥٠ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جسے ہر طرح کے تشدد اور ہر طرح کی ذلت کا نشانہ بنایا گیا۔اس ظلم کی نشاندہی ایک برطانوی صحافی نے کی ،مگر ظلم کی یہ داستان بھی لاپتہ افراد کی طرح پر اسرار طور پر گم ہوگئی۔قوم کی اس بیٹی کی ازیت اور ذلت کا ذمہ دار وہ حکمران ہیںجو” سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے تین کمسن بچون سمیت کراچی سے اغوا کرکے غیر ملکی ایجنٹوں کے حوالے کیا گیا۔
تاریخ اسلام میں اس سے بڑی بے غیرتی کی مثال تلاش کیجئے۔ شاید مل جائے ، مجھے نہیں ملی۔ غیرت کے نام پر شروع ہپونے والی محمد بن قاسم کی تحریک جسے قائداعظم نے منطقی انجام تک پہنچایا، کیا ڈاکٹر عافیہ کی عصمت کی ساتھ اپنی طبعی موت نہیں مر گئی؟اگر پاکستانی قوم کی غیرت ختم ہو گئی ہے تو نظریہ پاکستان کیسے قائم رہ سکتا ہے؟
قومی بے غیرتی کی ویسے تو کئی اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً ہمارے قبائلی علاقوں میں آئے دن ڈرون حملے! دوسرے ممالک کی طرف سے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی۔ اور ہمارے ارباب اختیار کی خاموشی!کسی غیر ملک کا اپنے فوجی اور ہیلی کاپٹر لے کر ہمارے ملک میںگھنٹوں آپریشن کرکے پنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا اور ہمیں کانوں کان خبر نہ ہونا، وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان اگر اسلام کے نام پر بنا ہے تو اس کے حکمرانوں میں اسلامی اقدار کی جھلک تونظر آنی چاہیئے۔
کچھ ماہ قبل وزیراعلیٰ سندھ کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ کراچی جیسے دوکروڑ آبادی والے شہر میں روزانہ چند لوگوں کا قتل کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے۔جبکہ حضرت عمر تو فرات کے کنارے کسی کتے کے بھوکے رہنے کو بھی چھوٹا واقعہ قرار نہیں دیتے۔
اس ملک پاکستان کو آپ درخت سے تشبیہہ دیں یا عمارت سے ، یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اس کی جڑیں بنیادیں اس حد تک کمزور ہو چکی ہیں کہ اس کا قائم رہنا کسی معجزے سے کم نہ ہوگا ۔اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی رحمت سے میرے اندازوں کوغلط فرمائے۔
0 تبصرہ جات:
Post a Comment