جمہوریت یا خلافت
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم مفسرِ قرآن، ترجمانِ اقبال، اور حُسنِ بیان میں لاجواب تھے۔ ان کی تحریروں اور تقریروں سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے استاذبیر بن عمر صدیقی کے دولت کدے پر مکة المکرمہ میں اکا دکا ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ صدیقی صاحب نے میرا تعارف کروایا تو وہ بڑی محبت سے پیش آئے۔ گزشتہ روز ان کے صاحبزادے اور تنظیم اسلامی کے امیر حافظ عاکف سعید کی جانب سے عشائیے اور تبادلہ¿ خیال کی دعوت وصول ہوئی تو میں نے لاہور سے باہر ہونے کے باوجود حامی بھر لی کہ میں حاضر خدمت ہوں گا۔ عشائیے پر خاکسار کے علاوہ کئی اور اصحاب علم و قلم موجود تھے۔
حافظ عاکف سعید نے اپنے تحریری خطاب میں قیام پاکستان کے پس منظر اور آزادی سے لیکر اب تک کے حالات پر جامع انداز میں روشنی ڈالی۔ انہوں نے ڈاکٹر اسرار احمد کی فکر اور ان کے تحریروں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان میں جمہوریت کا سفر ایک ناکام سفر ہے، ہمیں جمہوریت کا راستہ ترک کر کے خلافت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ان کے والد گرامی ڈاکٹر اسرار احمد نے 1957ءمیں اسی بنا پر مولانا مودودی سے اپنا راستہ جدا کر لیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں اسلامی نظام یا اسلامی انقلاب انتخاب کے ذریعے برپا نہیں ہو سکتا۔ حافظ عاکف سعید نے ڈاکٹر اسرار احمد کی چند کتب اور ہفت روزہ ”ندائے خلافت“ کا تازہ ترین شمارہ بھی عنایت فرمایا۔ اس جریدے کے مندرجات سے تنظیم الاسلامی کی فکر اور بھی واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ اس شمارے میں خلافت فورم کے ایک فکر انگیز مذاکرے کی روداد بھی شائع کی گئی ہے۔ مذاکرے کے شرکاءمیں پروفیسر غالب عطا اور ایوب بیگ مرزا شامل تھے۔ ایک سوال کے جواب میں پروفیسر غالب عطا بیان کرتے ہیں ”جمہوریت کو اسلامائز کرنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص قربانی کے بکرے کی بجائے س¶ر لے آئے لہٰذا ہمیں اس س¶ر سے نجات حاصل کر کے اس بکرے کو لانا ہو گا جس کی قربانی اللہ کی نظر میں جائز ہے۔“ میں اپنی گزارشات تو بعد میں عرض کروں گا پہلے خود ڈاکٹر اسرار احمد کی تحریر اور تجزیہ ملاحظہ کر لیجئے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب ”برعظیم“ پاک و ہند میں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید و تعمیل اور اس سے انحراف کی راہیں“ میں تحریر فرماتے ہیں ”چنانچہ یہ اسی کا مظہر ہے کہ حضرت علامہ اقبال نے ”ری پبلکن طرزِ حکومت“ کو اسلام کی روح کے عین مطابق قرار دیا --- اس لئے کہ اس میں کیا شک ہے کہ خدا کی حاکمیت مطلقہ کی تابع جمہوریت اور اللہ کی ربوبیت عامہ کے تقاضوں کو پورا کرنے اور کفالت عامہ کی ضمانت دینے والے نظام ہی کا نام ’نظامِ خلافت‘ ہے۔“
جس جمہوریت کے بارے میں تنظیم اسلامی کے ترجمان ندائے خلافت میں ”س¶ر“ تک کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اسی جمہوریت کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کا ارشاد یہ ہے کہ اگر یہ خدا کی حاکمیت مطلقہ کی تابع ہو تو یہ اسلامی انقلاب مقصود ہے۔
اس نشست میں خاکسار نے یہی عرض کیا کہ قراردادِ مقاصد کا پہلا نکتہ ہی یہ ہے کہ دستورِ اسلامی میں حاکمیت مطلقہ رب ذوالجلال کو حاصل ہو گی اور پاکستانی پارلیمنٹ ایک امانت کے طور پر حق حاکمیت کو استعمال کریگی۔ میں نے یہ بھی کہا کہ جو باتیں اور چیزیں طے شدہ ہیں ان کو دوبارہ زیر بحث لانا اتحاد کا نہیں انتشار کا باعث ہو گا۔ میں نے حافظ عاکف سعید سے پوچھا کہ کیا وہ 1951ءمیں طے پانے والے تمام مکاتب فکر کے 31 علمائے کرام کے 22 نکات کو تسلیم کرتے ہیں اور کیا وہ 1973ءمیں متفقہ طور پر منظور ہونے والے آئین کو مانتے ہیں۔ حافظ صاحب نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔
ہر زمانے میں عامة الناس کی تفہیم کیلئے استعمال ہونے والے الفاظ اور اصطلاحات کسی کی میراث نہیں ہوتے۔ آج اگر مغرب نے شورائیت کیلئے جمہوریت کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ لفظ مسلمانوں کیلئے حرام ہو جائے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اپنی تحریروں اور تقریروں میں جا بجا آج کے دور کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں --- وہ عدل اجتماعی، جمہوری انقلاب، حکمت انقلاب، اسلامی نظام، اسلامی انقلاب وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں نے حافظ عاکف سعید سے پوچھا کہ ہمارے نزدیک اللہ کی حاکمیت مطلقہ کے سایہ¿ رحمت میں آنے والی جمہوریت خلافت ہی کا دوسرا نام ہے۔ آپ چونکہ اسے جمہوریت سے الگ بلکہ اس کی ضد سمجھتے ہیں تو آپ یہ فرمائیں کہ یہ خلافت قائم کیسے ہو گی اور ایک دفعہ خلیفہ بن جانے والے شخص کو معزول کیسے کیا جائے گا۔ اسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کیلئے ایک الگ نشست کی ضرورت ہے تاہم یہ ہدف تحریک سے حاصل ہو گا۔ البتہ تحریک کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کر کے پھر اسے جمہوری اور انتخابات کے راستے پر ڈال دیا جائے گا۔ اس پر محفل میں شریک ایک معروف صاحبِ قلم نے کہا کہ پاکستان میں جتنی بھی تحریکیں چلیں اسکے نتیجے میں فوجی آمریت ہی مسلط ہوئی۔
ہمیں حیرت ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد قائداعظم محمد علی جناح کی مساعی جمیلہ اور علامہ اقبال کے ارشادات عالیہ کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں، خدا کی حاکمیت مطلقہ کو ماننے والی جمہوریت کو عین خلافت قرار دیتے ہیں پھر وہ اسلامی نظام اور اس نظام کے قیام کے لئے ذہن سازی اور انتخابی سیاست کو کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے خیال میں ڈاکٹر اسرار احمد اور اب اپنے والد کی فکر کے وارث حافظ عاکف سعید ایک ایسے تضاد کا شکار ہیں کہ جو خود ڈاکٹر صاحب کی مجموعی فکر اور ان کی ایک نہیں درجنوں تحریروں اور تقریروں کی ضد ہے۔
ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ 1957ءمیں جب ڈاکٹر اسرار احمد عین عنفوانِ شباب میں جماعت اسلامی سے الگ ہوئے تو اس کا سبب فکری اختلافات نہیں شخصی اختلافات تھے۔ اگر بقول حافظ عاکف سعید تحریک خلافت کی آخری منزل جمہوریت اور انتخابات ہے تو پھر اسلامی انقلاب شورائی اور انتخابی ذریعے سے کیوں نہ لایا جائے۔ آج ساری اسلامی دنیا مختلف تجربے کرنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہی اسلامی انقلاب حقیقی اور دیرپا ہو گا جو جمہوری مسلمین کی ”بیعت“ جس کا موجودہ نام ”ووٹ“ ہے کے ذریعے آئے گا۔ اسی جمہوریت کی برکت سے ترکی، مصر، ٹیونس اور دوسرے کئی ممالک میں اسلامی انقلاب آ چکا ہے یا وہ دستک دے رہا ہے۔
اگر اللہ اور اس کا رسول چاہتے تو وہ دیگر عبادات کی طرح نظام حکومت کے بارے میں بھی تفصیلی ہدایادت دے سکتے تھے مگر اسلامی نظام حکومت کے بارے میں چند اصولی تعلیمات بیان کرنے کے بعد اسے ہر زمانے کیلئے آزاد چھوڑ دیا گیا تاکہ عامة المسلمین اپنے زمانے اور اپنے حالات کے مطابق جیسا طرز حکومت چاہیں اختیار کر لیں۔ ان ہدایات میں واضح کر دیا گیا ہے کہ حاکمیت مطلقہ اللہ کو حاصل ہو گی۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ وہ اپنے ”معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں“ نیز قرآن و سُنت کےخلاف سارے مسلمان بھی اکٹھے ہو جائیں تو کوئی قانون بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی بدلا جا سکتا ہے۔ اگر ہم سائنسی مضامین کیلئے آج کا اسلوب بیان اختیار کر سکتے ہیں اور قرآنی ارشاد کہ ”اپنے گھوڑے تیار رکھو“ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ہر دور کا جدید ترین اسلحہ حاصل کرو تو پھر ہم شورائیت کیلئے دور جدید کی عام فہم اصطلاح جمہوریت کیوں نہیں استعمال کر سکتے۔
پلک جھپکنے میں انسان نہیں بدلتے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ علمائے کرام کو عمل خیر کے تسلسل میں کام جاری رکھنا چاہئے اور اتحاد امت کیلئے پہلے سے طے شدہ باتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں خاکسار نے عرض کیا تھا کہ ایم ایم اے دینی قوتوں کے اتحاد کی ایک شاندار کوشش تھی اسے جاری رہنا چاہئے اور آنے والے انتخابی معرکے میں تمام دینی قوتوں کو اپنا وزن ایم ایم اے کے پلڑے میں ڈالنا چاہئے۔ ہم حافظ عاکف سعید کی فراخدلانہ میزبانی اور ایک فکر انگیز نشست کا اہتمام کرنے پر تہہ دل سے ان کے شکر گزار ہیں اور ان سے درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ چند مخصوص الفاظ کے انتخاب اور استعمال پر زیادہ زور نہ دیں اور جمہوریت کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے میں دینی قوتوں کا ساتھ دیں۔
0 تبصرہ جات:
Post a Comment