مقاصدِ شریعت |
اللہ تعالیٰ نےاپنےبندوں کو جو احکام دیےہیں، ان سےسراسر بندوں ہی کی بھلائی مقصود ہے، اللہ تعالیٰ کو اپنےبندوں سےکچھ نہیں لینا، وہ ’’الصمد‘‘ ، یعنی ہر لحاظ سےبےنیاز ہے۔ بعض احکام دیتےہوئےاُن کےمقاصد کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، اور بعض کےمقاصد کی تفہیم اولوالالباب پر چھوڑدی گئی ہے۔ یہ بات شروع سےاہل علم کےسامنےواضح رہی ہے، اور وہ مصالح مرسلہ، اسرار، شریعت، معانی وحکم اور مقاصد شریعت جیسی اصطلاحات کےتحت شرعی احکام وفرائض کےمقاصد پر روشنی ڈالتےرہےہیں، تاہم یہ بات بھی واضح ہےکہ شریعت کےعمومی مقاصد کی تعیین اہلِ علم کےغور وفکر پر مبنی ہے، منزل من اللہ ہرگز نہیں۔ آج کےتناظر میں ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی نے’’مقاصدِ شریعت‘‘ پر غوروفکر کیا، اور اس کےحاصل کوسلسلۂ مقالات کی شکل میں پیش کیاجوپہلےادارہ تحقیقات اسلامی۔ اسلام آباد کےسہ ماہی مجلے’’فکرو نظر‘‘ میں اشاعت پذیر ہوئے، اور اب اپنی افادیت کےپیش نظر کتاب کی شکل میں پیش کیےگئےہیں۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی یوںتو علی گڑھ (بھارت) کےرہنےوالےہیں، لیکن وہ اپنی فکرودانش کےحوالےسےپورےعالمِ اسلام کا اثاثہ ہیں۔ اسلامی معیشت کےمختلف پہلووں پر اُن کی اردو اور انگریزی تحریرات متداول ہیں، اور امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل پر اُن کی رائےکو توجہ سےسُنا جاتا ہے۔ فاضل مصنف کی زیرنظر کتاب ان آٹھ ابواب پر مشتمل ہے:
- مقاصدشریعت: ایک عصری مطالعہ
- قاصدِ شریعت کی روشنی میں معاصر اسلامی مالیات کا جائزہ
- مقاصد شریعت اور مستقبلِ انسانیت
- مقاصد شریعت :فہم وتطبیق
امام جوینی کےشاگرد امام غزالی (م ۵۰۵ھ/ ۱۱۱۱ء) نےمصالح اور مقاصد دونوںتصورات کو یکجا کرتےہوئےمقاصدِ شریعت کی باضابطہ فہرست مرتب کر دی۔ اُن کےنزدیک خلقِ خدا سےمتعلق شریعت کا مقصد پانچ چیزوں،یعنی افراد کےدین،جان،عقل،نسل اور مال کی حفاظت ہے۔ ان پانچ کی حفاظت کرنےوالی چیز مصلحت اور انہیں نقصان پہنچانےوالی چیز مفسدہ ہےجسےدور کرنا مصلحت ہے۔ وقت کےساتھ مقاصد ِشریعت کی بحث نکھرتی چلی گئی،اور آٹھویں صدی ہجری میں امام ابواسحق شاطبی (م۷۹۰ھ/ ۱۳۸۸ء) کےہاں پوری جامعیت کےساتھ سامنےآئی، تاہم اس کےبعد بھی بدلتےہوئےحالات میں مقاصدِ شریعت کی تعیین و تفہیم کا عمل جاری رہا۔ برصغیر پاکستان وہند کی حد تک شاہ ولی اللہ کی معرکہ آرا کتاب ’’حجۃاللہ البالغہ‘‘ اسی سلسلےکی ایک کڑی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کےخاتمےپر انڈونیشیا سےمراکش تک مسلم آبادی کےخطےیکےبعد دیگرےاستعماری طاقتوں کی غلامی سےآزا د ہوئے،ان خطوں میں ابھرنےوالی تحریکات ِ آزادی کا ایک قوی عنصر مسلمانوں کا دینی تشخص تھا، چنانچہ آزادی کےبعد ان میں سےکئی ریاستوں میں اسلامی قانون کےنفاذ کا مطالبہ ہوا۔ فاضل مصنف نےاس حقیقت کی نشان دہی کی ہےکہ نفاذِ شریعت کی ان کاوشوںمیںمقاصدِشریعت کو موضوع بحث بننا تھا،اور بجاطورپر اس پر غور وفکر کیا گیا۔
آج کےدور میںذرائع اطلاعات اور رسل و رسائل کےترقی یافتہ وسائل کو دیکھتےہوئےوسیع و عریض دنیا کو ایک ’’عالمی گاؤں‘‘ کہا جا رہا ہے،مگر اس عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کا ڈیزائن مغرب کی سیاسی واقتصادی غلبہ رکھنےوالی اقوام کا تیار کردہ ہے۔ ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی نےعالمگیریت کے چیلنجوں سےعہدہ برآ ہونےکےلیےاسلاف کےبیان کردہ پانچ مقاصدِ شریعت (دین، جان، مال، عقل اور نسل کےتحفظ) کےساتھ ان چھ مقاصد کےحصول کا اضافہ کیا ہے:
انسانی عزوشرف
بنیادی آزادیاں
عدل وانصاف،ازالۂ غربت اور کفالتِ عامہ
سماجی مساوات اور دولت وآمدنی کی تقسیم میںپائی جانےوالی ناہمواری کو بڑھنےسےروکنا
امن وامان اورنظم ونسق
بین الاقوامی سطح پر باہم تعامل او ر تعاون۔
ڈاکٹر صاحب نےمذکورہ مقاصدِ شریعت کےمعتبر اور مستند ہونےپر اختصار اور جامعیت کےسا تھ نقلی و عقلی دلائل دیےہیں۔ (دیکھیے: صفحات ۲۲۔۴۴)
گزشتہ نصف صدی میںعالم اسلام کو جن نئےمسائل کا سامنا کرنا پڑا،اور غور وفکر کےبعد مسلم اہلِ دانش نےان میںسےبعض کےجو شرعی حل تجویز کیے،یا ان پر عمل کیا،فاضل مصنف نےان کا جائزہ لیتےہوئےواضح کیا ہےکہ جہاںمقاصدِ شریعت کو کماحقہٗ سامنےنہیںرکھا گیا،وہاںاہلِ دانش کی اختیار کردہ آراء کےنتائج اچھےمرتب نہیںہوئے۔ جدید مسائل کےسلسلےمیںفاضل مصنف نےکرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت،عورت کا بغیر محرم کےسفرکرنے،صدقۂ فطر کی نقدی کی شکل میںادائیگی،قطبین کےعلاقوںمیںنماز اور روزےکےاوقات،طویل المیعاد ٹھیکوںمیںادائیگیوں،اشیاء کی قیمتوںکےتعین،اسلا م قبول کرنےوالی خاتون کےکتابی شوہر کےنکاح میںرہنے،غیرمسلم اکثریتی ممالک میںمسلمانوںکےحقوقِ شہریت یا اس کےبرعکس مسلم اکثریتی ممالک میںغیرمسلموںکی شہریت،غیرمسلم ملک کےشہری ہوتےہوئےوہاںکی فوج میںمسلمان کی ملازمت،عورت کی سربراہی اور اسلامی مالیات اور بینکاری کےمعاملات پر اظہارخیال کیا ہے۔
فاضل مصنف نےنفاذِ شریعت کی راہ میںاہلِ دانش کےہاںمقاصدِ شریعت کےفہم اور تطبیق میںاختلاف کو ایک حقیقت کےطورپر تسلیم کیا ہے،اختلاف کےاسباب پر روشنی ڈالی ہے،اور بجاطورپر لکھا ہےکہ یہ ایک معمول کی بات ہے،اس پر تشویش کی کوئی ضرورت نہیں،ایسا ماضی میںہوتا رہا ہے،اورمستقبل میںبھی یہ ہوتا رہےگا،تاہم اختلاف سےعہدہ برآ ہونےکےلیےوہ ’’شورائی طریقِ فیصلہ‘‘ تجویز کرتےہیں(صفحات ۱۳۰۔ ۱۴۴)۔انہوںنےموجودہ صورت ِ حال کےضمن میںلکھا ہے:
صدیوںکی بگڑی عادت کےسبب عالم اسلامی میں،خصوصاً ان ممالک میںجو شورائی طریقِ فیصلہ، عوام کی شرکت سےانتظام وانصرامِ مملکت اور اظہار رائےاور آزادی اجتماع وغیرہ سےمحروم ہیں،زندگی کےہر دائرہ میںضابطہ بندی کا زور ہے،چنانچہ نئےاجتہاد اور پیش آمدہ مسائل پر غور وفکر اور تبادلۂ آراء کےذریعہ فیصلوںتک پہنچنےکےعمل کو بھی وہ آزادی میسر نہیںہےجو دوسری تاچوتھی صدی ہجری میںمیسر تھی۔ ہمیںیہ سمجھنا ہو گا کہ ضابطہ بندیوںمیںہمیشہ پھیلاؤ کا رجحان پایا جاتا ہےاور یہ کہ نئی فکر،نئےحل اور نئی راہیںنکالنےکےعمل کو قید وبند راس نہیںآتی۔ ہمیںاس ماڈل پر بھروسا کرنا ہو گا جو اسلام کی ابتدائی صدیوںمیںپایا گیا ۔ اس میںکوئی شبہ نہیںکہ افراد کو آزادانہ سوچنےاور تبادلۂ خیالات کی دعوت دینےمیںکچھ خطرہ (risk) مضمر ہے۔ اس کےنتیجہ میںطرح طرح کےخیالات سامنےآئیںگے،ان پر بحث و مباحثہ میںبڑا وقت لگےگا،اہلِ علم کا بڑا وقت ضائع ہو گا،کیوںکہ گمانِ غالب یہی ہےکہ ان نئےافکار میںسےاکثر غلط اور لاحاصل ثابت ہوںگے،کچھ لوگ سوچ سکتےہیںکہ وہ صورتِ حال اس سےبہتر ہےجو صدیوںسےقائم چلی آ رہی ہے،یعنی نئےپیش آمدہ مسائل میںاجتہاد کی کوشش کو امت کےعلماء اور فقہاء کا کام قرار دیا جائے،اور باقی لوگوںکو اس بات پر قانع رکھا جائےکہ ان کا کام سمع و طاعت ہے۔ (ص ۱۴۶)
فاضل مصنف کےنزدیک ضابطہ بند معاشروںکی یہ سوچ درست نہیں(ص۱۴۷)۔ انہوںنےاس سوچ کی غلطیوںکو ایک ایک کر کےواضح کیا ہے۔ مزیدبرآںاُن کےنزدیک کھلےآزادانہ تبادلۂ خیالات اور فیصلوںمیںجمہور کےحصہ لینےسےملتیںطاقت ور ہوتی ہیںنہ کہ کمزور۔ اہم تر بات یہ ہےکہ مسلمان اس عمل کےمن جانب اللہ مکلف ہیں۔
فاضل مصنف نےمقاصدِ شریعت کےایک اور اہم پہلو کی جانب توجہ دلائی ہے۔ اُن کےنزدیک یہ مقاصد اپنےاندر اثر ونفوذ کےحوالےسےعالمگیریت کا وصف رکھتےہیں۔ مقاصدِ شریعت کا دائرہ اس قدر وسیع ہےکہ یہ انسانیتِ عامہ کو محیط ہے۔ غیرمسلموںکےساتھ مسلمانوںکےتعلقات کی نوعیت،اس پس منظر میںمرتب ہونا چاہیے۔ انہوںنےعصرِحاضر کےمشترک انسانی مسائل کےبعض حل تجویز کیےہیں،اور ان کی اساس مقاصدِ شریعت کو ٹھہرایا ہے۔ انہوںنےان امور کی جانب توجہ دینےاور ان میںغورو غوض کرنےکی دعوت دی ہے۔
کتاب کا مطالعہ کرتےہوئےقاری یہ محسوس کرتا ہےکہ فاضل مصنف مسلمانوںکی زبوںحالی اور عالمی تناظر میںان کی شناخت کےگم ہو جانےپر دل گرفتہ ہیں۔ وہ مسلمانوںکی ایک نئی شناخت کےخواہش مند ہیںجو توحید،مکارمِ اخلاق ،سماجی مساوات،معاشی عدل اور سچی جمہوریت کی آئینہ دار ہو۔ اُنہیںافسوس اس بات پر ہےکہ آج مسلمان نہ صرف اس شناخت سےمحروم ہیں،بلکہ عام انسانوںکو ان میںکوئی ایسی بات نظر نہیںآتی جس سےیہ معلوم ہوکہ مسلمانوںکو ان (عام انسانوں) کی بھلائی مقصود ہے۔
فاضل مصنف کا اسلوب ِ تحریر مثبت اور امید افزا ہے۔ وہ مسلمانوںکی فکری،سیاسی،ثقافتی اور اقتصادی پس ماندگی کا ذکرکرتےہیں،مگر اپنےقاری کو مایوسی اور نا امیدی کی دلدل میںنہیںدھکیلتے،بلکہ اُسےاقوامِ عالم کےا سٹیج پر دوبارہ باوقار مقام حاصل کرنےکےلیےمفید راہ دکھاتےہیں۔
اپنےموضوع کےاعتبار سےیہ ایک اہم کتاب ہےجو مسلم امت کا درد رکھنےوالےتمام اہلِ فکر ونظر کو دعوتِ مطالعہ دیتی ہے۔ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کےکارپرداز بھی حسبِ سابق ایک اور اچھی کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کےمستحق ہیں۔ کتاب کی معنوی خوبیوںکو ترتیب وتدوین اور طباعت کےاعلیٰ معیار نےمزید بڑھا دیا ہے۔
کتاب میں درج قرآنی آیات پر اعراب لگانےکا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ تلاوتِ قرآن میں کسی غلطی سےبچنےکےلیےعام قارئین کےلیےاعرا ب بہت حد تک ضروری ہیں، بعض دوسرےادارےاپنی مطبوعات میں اب تو احادیث پر بھی اعراب لگانےکا اہتمام کرتےہیں۔ پوری کتاب میں’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کو ﷺ لکھا گیا ہے، مگر طغرےکا ابتدائی حصہ، پچھلےحروف کےساتھ اس طرح جڑگیا ہےکہ کمپوزنگ کی خوبصورتی متاثر ہوئی ہے۔ طغرےاور اس سےمعاً پہلےلفظ کےدرمیان مناسب فاصلہ ہونا چاہیےتھا، یا ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پر مشتمل اس سےکوئی بہتر طغریٰ استعما ل کر لیا جاتا تو مناسب ہوتا۔
ادارےسےیہ توقع بےجا نہ ہو گی کہ کتاب کا ایک سستا ایڈیشن بھی چھاپا جائےاور اسےہرایک کتب خانےاور زیادہ سےزیادہ ہاتھوں تک پہنچایا جائے۔
0 تبصرہ جات:
Post a Comment