شریعت اسلامیہ میں جرم وسزا اور نفاذ حدود
پروفيسرڈاکٹر فريدالدين سابق استاذ الحديث
تلخیص :حافظ امداداللہ محمود بن فريدالدين
جرم وسزا کے باہمی تعلق پر آج کل دنیا میں بڑا زور وشور برپا
ہے،ہر آئے دن اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت اورمغربی آقاﺅں کی خوشنودی کی
خاطرکوئی نہ کوئی اسلامی سزا اور شعار کو طعن وتشنيع کا نشانہ بنا يا جاتا
ہے،جرم وسزا کے حقیقی تعين کو اپنی خواہش کے اسلام کے تابع کرنے کی کوشش کی
جاتی ہے،ہر آئے دن کسی خود ساختہ مسئلہ کوبہانہ بناکر اپنے ذہن کی
پراگندگی کو اسلام اور اسلام پسند قوتوں کے سر تھوپنے کی بھونڈی بھانڈی
سازش کی جاتی ہے ، اس سازش میں عوام تو عوام بلکہ خواص بھی ان کے جراثيم کا
شکار ہو کر ان کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجيد فرقان ِ حمید نے
سنی سنائی خبروں کی خوب جانچ پڑتال کرلینے کا حکم ديا ہے تاکہ بعد میں
حقیقت کے کھلنے پر ندامت نہ اٹھانی پڑے ۔ ليکن اسلام کی حقانيت سے خائف لوگ
اپنے دل میںچھپے کفر کی آڑ میں اسلامی سزاﺅں کو بے رحمانہ اور ظالمانہ کہہ
کر اسلام دشمنی کاواضح ثبوت فراہم کررہے ہیں۔
اسلام نے جرم وسزا کا جو تصور پیش کیا ہے ،اس سے بہتر تصور آج
تک کسی نظام نے پیش نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ خالق نے جو سزا تجویز فرمائی
اسکے مقابلہ میں مخلوق کی تجویز کی ہوئی سزا کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔ یہ
انسان کی حد درجہ نادانی ہو گی کہ وہ اپنی تجویز کی ہوئی سزاﺅں کو اپنے
پیدا کرنے والے معبود ِبرحق کی تجویز کردہ سزاﺅں سے بہتر سمجھے۔
اسلامی سزاو ں کی حکمتیں
(1)اسلام نے لت پڑ جانے والی برائيوں پرسزائیں مقرر کی ہیں جس میں معاشرہ کی خير رکھی ہے:
حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں” بعض معاصی کے ارتکاب پر شریعت
نے حد مقرر کی ہیں۔ یہ وہی معاصی ہیں جن کے ارتکاب سے زمین پر فساد
پھیلتاہے۔ نظامِ تمدن میں خلل پیدا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے کی طمانیت اور
سکون ِقلب رخصت ہو جاتاہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ معاصی کچھ اس قسم کی
ہوتی ہیں کہ دو چار بار ان کا ارتکاب کرنے سے ان کی لت پڑ جاتی ہے۔ ا ور
پھر ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی معاصی میں محض آخرت کے
عذاب کا خوف دلانا اور نصیحت کرنا کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ ضروری ہے کہ ایسی
عبرتناک سزامقر ر کی جائے کہ اس کا مرتکب ساری زندگی کے ليے معاشرے میں
نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور سوسائٹی کے دیگر افراد کے لیے سامانِ عبرت
بنا رہے۔ اور اسکے انجام کو دیکھ کر بہت کم لوگ اس قسم کے جرم کی جرا ت
کریں“ ۔
(حجة اللہ البالغہ ، شاہ ولی اللہ دہلوی۔ ج 2 ص 158 )
(2) اسلامی سزا ﺅں کا نفاذ عین فطرت کے مطابق ہے اور انہیں ظالمانہ کہنے والے انسانی عفت وعصمت کے دشمن ہیں:
ہمیں اعتراف ہے کہ قرآن کریم اور سنت نبوی میں سخت
سزائیںتجویز کی گئی ہیں لیکن جن لوگوں کی نظر ان سزاﺅں کی سنگینی پر جاتی
ہے انہیں اس پر بھی نظر کرنی چاہیے کہ جس فعل پر یہ سزائیں مقرر کی گئیں
ہیں وہ فعل کس قدر گھناﺅنا اور کس قدر انسانیت سوز ہے۔ آج وہ لوگ جو اسلامی
سزاﺅں کو غیرمہذب، وحشیانہ اور ظالمانہ بتلا رہے ہیں اپنی بیوی کو مشتبہ
حالت میں غیر مرد کے پاس دیکھ لیں تو یقیناً غیرت سے دونوں کو موت کے گھاٹ
اتار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کر یں (اگر چہ اس حالت میںديکھنے کے
باوجود شرعاً ازخود سزا دينے ياقتل کرنے کی ممانعت ہے)ا س لیے کہ یہ انسانی
فطرت ہے، تعجب ہے جب شریعت زانی مرد اور زانی عورت کی وہی سزا تجویز کر تی
ہے تو نافہم لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اس سزا کو غیر مہذب اور وحشیانہ
کہنے لگتے ہیں۔ جبکہ اسلام نے سزا کے جاری کرنے میں انتہائی احتیاط برتنے
کا حکم دیاہے اور جرم کے ثابت ہونے پرسخت سے سخت شرائط مقرر کی ہے اورپھر
اس جرم کے ارتکاب کے بعد شبہ کی بنیادپرحد کو ساقط کرنے کا حکم بھی صادر
فرمایاہے ۔
تعجب ہے کہ خود تواپنی بیوی کو مشتبہ حالت میں دیکھ کر قتل
کرنے پر تل جائیں اور جب شریعت انتہائی واضح شہادتوں کے بعد وہی فیصلہ کرے
تو وہ سزا انہیں وحشیانہ نظر آنے لگے۔
٭ زنا ایک خبيث ترين فعل ہونے کے ساتھ ايک بڑا گھناﺅنا جرم ہے
جو پوری انسانیت کے لیے تباہی کا باعث ہے۔ خاندانی شرافت اور نسب کے لیے
باعث ذلت ہے، لہذااگر اسلام غیرشادی شدہ زانی مرد اور غیرشادی شدہ زانی
عورت کو 100 کوڑے مارنے اور شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کوسنگسار کرنے
کی سزا صادر کرے تو کیا یہ عین فطرت نہیں تاکہ معاشرہ اور پوری انسانیت
فساد سے بچ جائے۔
٭یہی حال چوری کاہے، فرض کیجئے کہ ایک چور سارے گھر کو لوٹ
لیتاہے، اگراسی اثناءمالک مکان اسے دیکھ لے اور اسکے ہاتھ میں اسلحہ بھی ہو
توکیا وہ اسے چھوڑ دے گا؟ ظاہرہے نہیں بلکہ فوراًاس پرگولی چلادے گاورنہ
کم از کم اسکے پاﺅں میں گولی مار کر اسے بیکار کر دے گا۔ یہی جرم ثابت ہونے
کے بعد شریعت صرف ہاتھ کاٹنے کی سزا دے تو اسے وحشیانہ سزا قرار دینا کہاں
کا انصاف ہے ۔
٭یہی حال حد قذف کاہے اگر کوئی شخص کسی کی پاکدامن بیٹی پر
زنا کی تہمت لگا دے تو ایک غیرت مند آدمی اپنی بیٹی کی عصمت و عفت پرداغ
کوقطعاً برداشت نہیں کرسکتا بلکہ ممکن ہے پاک دامن بیٹی کا بدلہ چکانے کے
لیے تہمت لگانے والے کاکام تمام کر دے۔ اگر یہی جرم ثابت ہونے کے بعد اسلام
تہمت لگانے والے پر80 دُرے لگانے کا حکم صادر کرتا ہے تو یہ وحشیانہ سزا
کیسے ہوئی ۔
٭یہی صورت حال شُرب ِخمر کی حد میں ہے جس سے پورے معاشرے میں
بگاڑ پیداہوتا ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں انسان جب نشے میں ہوتا ہے تو اول
فول بکنے لگتا ہے۔ اول فول بکتے وقت عموماً وہ تہمتیں لگاتا ہے لہٰذا شراب
نوشی کی حد بھی وہی ہونی چاہیے جو حد قذف کی ہے ،جب صحابہ کرام اس بات پر
متفق ہو گئے تو حضرت عمر نے تمام ممالک محروسہ میں یہ حکم نامہ لکھ کر بھیج
دیا کہ شراب نوشی کی حد 80کوڑے ہیں ،اسی روایت کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ
، امام مالک ، امام احمد فرماتے ہیں کہ شراب نوشی کی حد80 کوڑے ہیں
اور اسی پر پوری امت کا اجماع ہے۔ ( المغنی لابن قدامہ ج 10 ص326 )
اسلامی سزائیں عین فطرت کے مطابق ہیں ، جرم کی سختی اور اسکے
ضررکے مقابلہ میں وہ قطعاًسخت نہیں ہیں۔ جو لوگ انسانی حقوق کے نام پر اس
فطرت کو بدلنا چاہتے ہیں وہ انسانی فطرت کے خلاف آمادہ جنگ ہیں۔
حد کی تعريف
حد کی جمع حدود ہے۔ لغت میں حد دو چیزوں کے درمیان فصل
کرنیوالی چیز کو کہتے ہیں (محیط المحیط ج 1 ص 358) یا کسی چیز کے منتہی کو
بھی حد کہتے ہیں (تاج العروس ج 2 ص 231 )
درالمختار میں حد کی تعریف یوں کی گئی ہے:”’لغت میں حد منع
کرنے کو کہتے ہیں اور شریعت میں حد وہ سزا ہے جس کی مقدار معين ہے اور جو
اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر واجب کی گئی ہے تاکہ لوگوں کو ان جرائم سے باز
رکھے۔ تعزيربھی حد نہیں کیونکہ اسکی مقدارمتعین نہیں اور قصاص بھی حد نہیں
کیونکہ وہ مقتول کے وارث کا حق ہے“۔(درالمختار،کتاب الحدود،ص4 ج166)
چنانچہ حد شرعاً اس سزا کو کہتے ہیں جو اللہ یا اسکے رسول کی جانب سے مقرر ہو۔
اسلامی حدود آیات قرآنی سے بھی ثابت ہیں جیسے زنا ،چوری ،
لڑائی فساد کرنے والے اور شراب کی حد ۔ نیز حد کا ثبوت احادیث نبوی سے بھی
ثابت ہے جیسے حد رجم ۔
اقسامِ حدود
فقہائے اسلام نے بالعموم جرائم حدود کی پانچ اقسام بیان کی
ہیں (1)حدِزنا (2)حدِ قذف (3)حدِ سرقہ(4)حدِ قطع الطریق (ڈاکہ زنی کی
حد)(5)حدِ شُرب ِخمر(شراب نوشی کی سزا)۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ جرائم
حدود چھ ہیں۔ چنانچہ مذکورہ بالا جرائم کے علاوہ ارتداد بھی حدود میں شامل
ہے۔ ایک تیسری رائے یہ ہے کہ جرائم حدود سات ہیں۔ مذکورہ بالاچھ جرائم کے
علاوہ بغاوت بھی اس میں شامل کی ہے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے سترہ جرائم کو قابل حد شمار کیا ہے
اور گیارہ جرائم کے متعلق اتفاق ظاہر کیاہے۔ مذکورہ بالاسات جرائم کے علاوہ
ترک صلوٰة، ترک صوم ،جادو گری ، جانوروں سے لواطت کو بھی حدود میں شمار
کیا ہے۔ (فتح الباری ج 15۔ ص 61)
ڈاکٹر عبدالعزیز عامر نے اپنی تالیف ”التعزیر فی الشریعة
الاسلامیہ “میں صرف سات جرائم کو قابل حد قرار دیا ہے ۔ (التعزیرفی الشریعة
الاسلامیة۔ ص 13)لیکن جن جرائم کے حدود ہونے پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے
وہ سب قرآن پاک سے ثابت ہیں۔
.1زنا کی حد کا ثبوت سورة النور کی آيت نمبر2میں ہے۔
.2 تہمت کی حدکا ثبوت سورة النور کی آیت نمبر 4میں ہے۔
. 3 راہزنی کی حدسورة المائدة کی آیت نمبر 34-33 میں ہے۔
.4 چوری کی حدسورة المائدة کی آیت نمبر 38 میں ہے۔
.5 شراب نوشی کی حد سورة المائدة کی آیت نمبر 90 میں ہے۔
.6 باغی کی حد سورة الحجرات کی آیت نمبر 9 میں ہے۔
.7مرتد کی حد سورة البقرة کی آیت نمبر 217 میں ہے۔
لواطت کی سزا
لواطت کے اس قبيح اور خبيث فعل پر متعدد سخت تنبيہ آور احاديث آئی ہیں۔
٭ابن عباس سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
نے فرمايا : ”جس شخص کو قومِ لوط کا عمل کرتے پاﺅ تو فاعل اور مفعول دونوں
کو قتل کر ڈالو“ ۔(ترمذی ،ابن ماجہ )
٭ جابر سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے
فرمايا:”اپنی امت پرمجھے سب سے زيادہ جس کا خوف ہے وہ عمل قومِ لوط
ہے“۔(ترمذی ،ابن ماجہ ،حاکم)
٭ابن عباس سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
نے فرمايا : ”اللہ تعالیٰ اس مرد کی طرف نظر ِرحمت نہیں فرمائیں گے جو مرد
کے ساتھ جماع کرے يا عورت کے پيچھے کے مقام میں جماع کرے “۔( ترمذی ،نسائی
،ابن حبان)
لواطت کرنے والے کی حد کے متعلق اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک لواطت پر شرعاً کوئی حد مقررنہیں ہاں
امام المسلمین جس قسم پراور جس قدر مصلحت سمجھے بطور تعزیرسزا جاری کر سکتا
ہے۔ امام شافعی کا ظاہر قول ہے کہ فاعل پر حدزنا جاری ہوگی اور مفعول پر
سوکوڑے ہیں۔ امام شافعی کا دوسرا قول یہ ہے کہ فاعل اور مفعول بہ دونوں کو
قتل کیا جائے گا، جيسا کہ پیارے نبی صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے ”جس
شخص کو قومِ لوط کا عمل کرتے پاﺅ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر ڈالو“
۔(ترمذی ،ابن ماجہ )
امام مالک اور امام احمد کے نزدیک لواطت کرنے والے کو سنگسارکیا جائے گا۔
حد زنا میں سزا کا تعین
قرآن پاک میں جو سزائیں متعین کر دی گئیں ہیں۔ ان میںزنا کی
سزا اُن تمام جرائم کی سزاﺅں سے سخت ہے۔ چونکہ زنا خود ایک بڑا جرم ہونے کے
علاوہ پوری انسانیت کے لیے تباہی کا باعث ہے نیز بہت سے جرائم کا مجموعہ
ہے جس سے نسب مجروح ہوتا ہے ۔ عورت اپنی عصمت اور عفت سے محروم ہو جاتی ہے ،
قبیلہ اور خاندان کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اسلام
نے تمام جرائم میں فحش تر جرم زنا کو قرار دیا ہے اور اسکی سزا بھی انتہائی
سخت مقرر فرمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اَلزَّانِیَةُ وَالزّاَنِی فَاجلِدُواکُلَّ وَاحِدٍ
مِّنھُمَا مِائةَ جَلدَةٍ وَّلَا تَا خُذ کُم بِھِمَا رَا فَة فِی دِ
ينِ اللّٰہِ اِن ِ کُنتُم تُو مِنُو نَ بِاللّٰہِ وَاليَو مِ الآخِرِ
وَليَشھَد عَذَابَھُمَا طَائِفَة مِّنَ المُومِنِينَ ۔( سورة النور آیت
نمبر 2)
ترجمہ:”بدکار عورت اور بدکار مرد (غير شادی شدہ)ہر ايک کو سو
کوڑے مارو، اگر تم اللہ اور يومِ آخرت پر يقین رکھتے ہوتو اللہ کے دين کا
يہ قانون لاگوکرنے میں تم کو کسی کا لحاظ کرنے اور ترس کھانے کی ضرورت نہیں
اور ان دونوں کو سزا ديتے وقت ايمان والوں کی ايک جماعت کو حاضر رہنا
چاہے“۔
یہ سزا تو غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے مقرر ہے البتہ
اگرشادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت زنا کے مرتکب ہوں تو اسلام نے رجم کی
سزا مقر ر کی ہے۔اور یہ سزا حدیث،خلفائے راشدین کے تعامل اور اجماع امت سے
ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت عمر نے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا: فَرَجَمَ رَسُو لُ
اللّٰہِ ﷺ وَرَجَمنَا بَعدَہ ( البخاری حدیث نمبر 1009 ج 2 )
”رسول اللہ صلى الله عليه سولم نے شادی شدہ زانیوں کو رجم
فرمایا اور آپ کے بعد ہم نے رجم کیا“۔ چنانچہ حضرت ماعز اسلمی اور غامدیہ
کو خود رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے حکم مبارک سے رجم کیا گیا۔ (
موطا امام مالک۔ کتاب الحدود حدیث نمبر4۔5 )
حد قذف (تہمت کی حد)
قذف سے مراد تہمت ہے يعنی بغیر شرعی ثبوت کے کسی مرد یا عورت
پر زناکا الزام لگانا۔ اسلام میں اس تہمت لگانے کو شدید جرم قرار دیا گیا
ہے۔ اور اس جرم پر حد شرعی 80کوڑے مقرر کی گئی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ
نکلے گا کہ کوئی شخص صرف اس وقت کسی پر زنا کا الزام لگائے گا جب وہ اس فعل
خبیث کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ صرف ایک آدمی سے شہادت پوری نہیں ہوگی
بلکہ جب چار اشخاص اس قسم کی کامل گواہی دے دیں تب اس حد کو قاضی لاگو کرے ۔
نصاب ِشہادت کم ہونے کی صورت میں الزام لگانے والے حد قذف کے مستوجب قرار
پائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴾ وَالَّذِینَ یَر مُو نَ المُحصَنَاتِ
ثُمَّ لَم یَاتُوا بِاَر بَعَةِ شُھَدَائَ فَاج لِدُو ھُم ثَمَانِینَ
جَلدَةً وَّلَا تَقبَلُو ا لَھُم شَھَادَةً اَبَدَاً وَاُو لَائِکَ ھُمُ
الفَاسِقُو ن ﴿ (سورة المائدة آیت نمبر 4 )
ترجمہ:”اور جو عيب لگاتے ہیں پاک دامن عورتوں پر اور پھر اس
الزام پر چار گواہ نہ لاسکیںتو ايسوں کو اسی کوڑے مارو اور پھر انکی گواہی
کبھی قبول نہ کرو کہ ايسے لوگ بدکردار ہیں“۔
حد سرقہ (چوری کی حد)
چور چونکہ معاشرہ کی فضا درہم برہم کرناچاہتا ہے، چوری کرنے
کے لیے قتل کی واردات کا بھی مرتکب ہوتا ہے۔ جس سے پورے معاشرہ کا امن
واطمینان جاتا رہتا ہے۔ ان خطرناک اثرات ونتائج کے پیش نظر اسلام نے سخت
ترین سزا کا حکم نافذ فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔﴾ وَالسَّارِقُ
وَالسَّارِقَةُ فَاقطَعُوا اَیدِیَھُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا
مِنَ اللّٰہ وَاللّٰہُ عَزِیز حَکِیم﴿(سورة المائدة آیت نمبر 38 )
ترجمہ:”اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت اُن کے ہاتھ کاٹ ڈالو
یہ اُن کے فعلوں کی سزا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت ہے اور اللہ زبردست
حکمت والا ہے ۔
0 تبصرہ جات:
Post a Comment