خلافت کا زمانہ
بالآخر اس بحث میں خلافت کے زمانہ کا سوال پیدا ہوتا ہے سو ظاہر ہے کہ جب
خلافت خدا کا ایک انعام ہے اور وہ نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے آتی ہے
تو لازماً اس کے قیام کی دو ہی شرطیں سمجھی جائیں گی۔ اول یہ کہ خدائے حکیم
و علیم کے علم میں مومنوں کی جماعت میں اس کی اہلیت رکھنے والے لوگ موجود
ہوں اور دوسرے یہ کہ نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے اس کی ضرورت باقی ہو۔
اور چونکہ یہ دونوں باتیں خدا تعالیٰ کے مخصوص علم سے تعلق رکھتی ہیں اس
لئے کسی دور میں خلافت کے زمانہ کا علم بھی صرف خدا کو ہی ہو سکتا ہے۔
قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نبوت کے متعلق فرماتا ہے ’’ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ‘‘
یعنی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے سپرد کرے گا۔ اور چونکہ
خلافت کا نظام بھی نبوت کے نظام کی فرع ہے اس لئے اس کے لئے بھی یہی قانون
نافذ سمجھا جائے گا جو اس لطیف آیت میں نبوت کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ اب
چونکہ ’حیث‘ کا لفظ جو اس آیت میں رکھا گیا ہے ۔ عربی زبان میں ظرف مکان
اور ظرف زمان دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اس لئے اس آیت کے مکمل معنی یہ
بنیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس بات کو بہتر جانتا ہے کہ نبوت اور اس کی
اتباع میں خلافت پر کسی شخص کو فائز کرے اور پھر کس عرصہ تک کے لئے اس
انعام کو جاری رکھے؟ پس جب تک کسی الٰہی جماعت میں خلافت کی اہلیت رکھنے
والے لوگ موجود رہیں گے اور پھر جب تک خدا کے علم میں کسی الٰہی جماعت
کے لئے نبوت کے کام کی تکمیل اور اس کی تخمریزی کے نشوونما کی ضرورت باقی
رہے گی خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور اگر کسی وقت ظاہری اور تنظیمی
خلافت کا دور دبے گا تو اس کے مقابل پر اسلام کی خدمت کے لئے روحانی خلافت
کا دور ابھر آئے گا اور اس طرح انشاء اللہ اسلام کے باغ پر کبھی دائمی
خزاں کا غلبہ نہیں ہوگا۔
0 تبصرہ جات:
Post a Comment