یاد رکھنا ہر اولاد اس بات کو

جب تو پیدا ہوا کتنا مجبور تھا
یہ جہان تیری سوچ سے بھی دور تھا۔۔۔


ہاتھ پاؤ بھی تب تیرے اپنے نہ تھے
تیری آنکھوں میں دنیا کے سپنے نہ تھے۔۔۔

تجھ کو آتا صرف رونا ہی تھا
دودھ پی کر کام تیرا سونا ھی تھا۔۔۔

تجھ کو چلنا سکھایا تھا ماں نے تیری
تجھ کو دل میں بسایا تھا ماں نے تیری۔۔۔

ماں کے سائےمیں پروان چڑھنے لگا
وقت کے ساتھ قد تیرا بڑھنے لگا۔۔۔

دھیرے دھیرے تو کڑیل جوان ہو گیا
تجھ پر سارا جھان مھربان ہوگیا۔۔۔

زور بازو پر تو بات کرنے لگا
خود ھی سجنے لگا خود ھی سنورنے لگا۔۔۔

ایک دن ایک لڑکی تجھے بھا گئی
بن کر دلھن وہ تیرے گھر آگئی۔۔۔

اب فرائض سے تو دور ہونے لگا
بیج نفرت کا تو خود ہی بونے لگا۔۔۔

پھر تو ماں باپ کو بھی بھولنے لگا
تیر باتوں کے توں چلانے لگا۔۔۔

بات بے بات ان سے تو لڑنے لگا
قائدہ اک نیا تو پھر پڑ ھنے لگا۔۔۔

یاد کر تجھ سے ماں نے کہا ایک دن
اب ہمارا گزارا نہیں تیرے بن۔۔۔

سن کر یہ بات تو تیش میں آگیا
تیرا غصّہ تیری عقل کو کھاگیا۔۔۔

جوش میں آکر تونے یہ ماں سے کہا
میں تھا خاموش سب دیکھتا ہی رہا۔۔۔

آج کہتا ہوں پیچھا میرا چھوڑ دو
جو ہے رشتہ میرا تم سے وہ توڑ دو۔۔۔

جاؤ جاکر کہیں کام دھندا کرو
لوگ مرتے ہیں تم بھی کہیں جا مرو۔۔۔

بیٹھ کر آہیں بھرتی تھی میں رات بھر
انکی آنکھوں کا تجھ پر ہوا نہ کچھ اثر۔۔۔

ایک دن باپ تیرا چلا روٹھ کر
کیسے بکھری تھی پھر تیری ماں ٹوٹ کر۔۔۔

پھر وہ بھی بس کل کو بھلاتی رہی
زندگی اس کو ہر روز ستاتی رہی۔۔۔

ایک دن موت کو بھی ترس آگیا
اس کا رونا بھی تقدیر کو بھاگیا۔۔۔

اشک آنکھوں میں تھے وہ روانہ ھوئی
موت کی ایک ہچکی بھانا ہوئی۔۔۔

اک سکون اسکے چھرے پہ چھانے لگا
پھر تو میّت کو اسکی سجانے لگا۔۔۔

مدّتیں ہوگئیں آج بڈّھا ہے تو
ٹوٹٰی کھٹیا پہ پڑا برا ہے تو۔۔۔

تیرے بچّے بھی اب تجھ سے ڈرتے نہیں
نفرتیں ہیں، محبّتیں وہ کرتے نہیں۔۔۔

درد میں تو پکارے `او میری ماں`
تیرے دم سے ہی روشن تھے دونو جہاں۔۔۔

وقت چلتا رہتا ہے وقت رکتا نہیں
ٹوٹ جاتے ہیں وہ جو جھکتے نہیں۔۔۔

بن کر تو اب عبرت کا نشان رہ گیا
دھونڈھ اب زور تیرا کہا رہ گیا۔۔۔

تو احکام ربّی بھلاتا رہا
اپنے ماں باپ کو تو ستاتا رہا۔۔۔

کاٹ لے تو وہ ہی تونے بویا تھا جو
تجھ کو کیسے ملے تونے کھویا تھا جو۔۔۔

یاد کرکے گیا دور، تو رونے لگا
کل کو جو تونے کیا آج پھر ہونے لگا۔۔۔

موت مانگے تجھے موت آتی نہیں
ماں کی صورت نگاہوں سے جاتی نہیں۔۔۔

تو جو کھانسے تو اولاد ڈانٹے تجھے
تو ہے ناسور سکھ کون بانٹے تجھے۔۔۔

موت آئے گی تجھ کو مگر وقت پر
بن ہی جائے گی قبر تیری وقت پر۔۔۔

قدر ماں باپ کی اگر کوئی جان لے
اپنی جنّت کو دنیا میں پہچان لے۔۔۔

اور لیتا رہے وہ بڑوں کی دعائیں
اسی کے دونوں جھاں، اسکا ھامی خدا۔۔۔

یاد رکھنا ہر اولاد اس بات کو
بھول نہ جانا رحمت کی اس برسات کو