عزم بہزاد

رات ایک محفل میں گفتگو نمو پر تھی
ہر زبان ساکت تھی، ہر نگاہ پتھر تھی

اک سوال کی لوَ سے ہونٹ جھلسے جاتے تھے
اک جواب کی ٹھنڈک آہ کے برابر تھی

ایک بے یقیں لہجہ خوف سے لرزتا تھا
اک چھپی ہوئی حیرت، حیرتوں سے باہر تھی

وہ سخن زباں پر تھا، جس کو دل میں رہنا تھا
وہ شکن جبیں پر تھی جو ادائے بستر تھی

میں بہت ہراساں تھا زخم کے نہ بھرنے سے
ایک شب کی مہلت تھی اور جنگ سر پر تھی

شاخ ِ دل کی ہریالی خواب کا بیاں ٹھہری
میں نے جس کو نم رکھا، وہ زمیں ہی بنجر تھی

مجھ میں ایک دریا ہے جو بپھرتا رہتا ہے
پہلے ایک صحرا تھا جس پہ چُپ کی چادر تھ

میں نے اس کو ہر لمحہ جسم سے پکارا تھا
اب کُھلا کہ وہ خواہش روح کے برابر تھی

عشق کی کرامت ہے ورنہ عمر کے ہاتھوں
خال و خط کی ویرانی حسن کا مقدر تھی

کیا ہوئے وہ لب جن سے پھول ہی برستے تھے
کیا ہوئی وہ شادابی جو ہمیں میّسر تھی

عزم بے سبب دیکھا تم نے خواب ِسیرابی
دشت کے تسلسل میں تشنگی ہی بہتر تھی