پرسکون رہنے کے جاندار اصول
آواز کا بھی جسم پر اثر پڑتا ہے۔ ہر آواز کا جسم پر فوری ردِّعمل مرتب ہوتا ہے۔ آواز جس قدر تیز اور اونچی ہوتی ہے ہمارے جسم میں اتنی ہی زیادہ گرمی پیدا کرتی ہے اور اس بڑھی ہوئی گرمی سے کلاہِ گردہ کی رطوبت خون میں شامل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر یہ رطوبت زیادہ مقدار میں خون میں شامل ہو جائے تو اس طبیعت میں بے چینی اورتشویش پیدا ہونے لگتی ہے۔تیز آواز سے آدمی مر بھی سکتا ہے۔ ماہرین آواز نے گرمی، سردی وغیرہ کی طرح آواز کے ماپنے کے آلے بھی بنائے ہیں۔ ہم عام طور پر چالیس درجے کی آواز سے گفتگو کرتے ہیں۔ ریڈیو عام طور پر پچاس اور ساٹھ درجے کی آواز پر بجائے جاتے ہیں۔ اتنی آواز کا جسم پر چنداں مضر اثر نہیں پڑتا۔ گھر کے کام میں عام طور پر اسی درجے کی آوازیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ یہ البتہ مضر ہوتی ہیں۔ قلب کے مریضوں کیلئے 80 درجے کی آواز نقصان رساں ہوتی ہے۔
گھر کی بعض لڑائیاں صرف اونچی آواز کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بعض عورتیں دن بھر چیخنے چلانے کی وجہ سے نڈھال اور بیمار رہتی ہیں۔ بعض لوگ دن بھر اونچی آواز سے ڈیک بجاتے رہتے ہیں۔ اتنی اونچی آواز دِ ل و دماغ کیلئے سخت مضر ہوتی ہے اور سکون بہم پہنچانے کے بجائے تھکے ہوئے حواس اور جسم کو اور زیادہ تھکا دیتی ہے۔
باہر کی آواز کا مسئلہ اور زیادہ دشوار ہے لیکن اس کو کم کرنا ناممکن نہیں ہے ہم عمارتوں کو ایسا بنا سکتے ہیں کہ باہر کی آوازیں زیادہ نہ ستا سکیں۔ آواز کو کم تکلیف دہ بنانے میں فاصلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ گھر کا شوروغل کے مقامات سے دور ہونا صحت کیلئے بہتر ہے۔ اینٹوں کی دیواروں، جھاڑیوں کی باڑھ اور درختوں کی قطاروں سے آواز کو پانچ درجہ کم کیا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کا مکان شوروغل کے مقام پر واقع ہے تو بیٹھنے اور سونے کے کمروں کو سڑک کی مخالف سمت میں ہونا چاہیے چھت اور دیواریں اگر ایسی ٹائلوں سے بنائی جائیں جو آواز کو جذب کر لیتی ہیں تو باہر کی آوازوں کی گونج بڑی حد تک کم ہو جاتی ہے۔ فرش پر اگر دری یا چٹائی بچھا دی جائے تو یہ بھی آواز کو کم کرنے کیلئے ایک اچھی تدبیر ہے۔ گھر میں لوگوں کے چلنے سے بھی خاصی پریشان کن آواز پیدا ہوتی ہے۔ اوپر کی چھت پر اگر لوگ چلتے پھرتے ہوں تو اس پر موٹی دری یا قالین بچھا دینے سے قدموں کی آواز کو قابل برداشت بنایا جا سکتا ہے۔
ہم شوروغل کو کم کرکے اپنی توانائی کو بے فائدہ ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ تیز آوازوں سے ہمارے دِل و دماغ پر بڑا ناگوار اور مضر اثر پڑتا ہے۔ اس پُرآشوب زمانے میں لوگوں کے اعصاب ویسے ہی بہت تھکے ماندے اور ایذا رسیدہ ہوتے ہیں، اس پر شوروغل درد ناک جسم پر کوڑے کا کام کرتا ہے۔ توانائی انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ہر قیمت پر حفاظت کی جانی چاہیے۔
آج کا دور ایسا دور ہے کہ انسان مسابقت کی جنگ میں مصروف ہے ایک انسان دوسرے انسان سے، ایک ملک دوسرے ملک سے آگے بڑھ جانے کیلئے بے چین ہے اس بے چینی نے سائنس کو غلط مفادات کیلئے استعمال کیا ہے مشینی دور نے جنم لیا ہے جس نے شوروغل کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ بڑے شہروں میں موٹروں، بسوں، موٹرسائیکلوں نے انسانی صحت و زندگی کیلئے بڑا شدید مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب شہروں میں کئی مقامات پر موٹروں کے ہارن بجانے پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں مگر قانون کی بالادستی کو عوام نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ آج بھی موٹروں کے ہارن بلا تامل و تکان بج رہے ہیں اور صحت کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
درحقیقت قانونِ وقت اور قانونِ فطرت دونوں کا احترام کرنا انسان کا فرض ہے۔ اگر حکومت نے بقائے صحت کیلئے ہارن بجانے کو ممنوع قرار دیا ہے تو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ قانونِ فطرت بھی یہ ہے کہ انسان اپنے افعال و اعمال میں نرمی برتے۔ آپ جو کام کرتے ہیں ان میں نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر آپ دروازہ کھولتے یا بند کرتے ہیں تو اس میں نرمی برتیں، آواز اور شور کیے بغیر بھی دروازہ کھولا یا بند کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہر انسان اپنی جگہ یہ فیصلہ کر لے کہ وہ شور کو کم سے کم کرے گا تو صرف اس ایک عمل سے صحت کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
شوروغل کو کم کرنے کیلئے حکومت اور عوام دونوں پر فرائض عائد ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ قانونِ حکومت موجود ہے کہ ریستورانوں وغیرہ پبلک مقامات پر لاﺅڈ اسپیکر وغیرہ اتنی بلند آواز سے نہیں بجایا جا سکتا کہ اپنی حد سے باہر آواز جائے۔ عوام کو اس کا احترام کرنا چاہیے اور آواز کو محدود کرنا چاہیے۔
موٹرسائیکل رکشہ کی آواز اور شور نے شہر میں صحت کا بڑا سنگین مسئلہ پیدا کیا ہوا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے اس مسئلے کا صحیح حل تلاش کرنا چاہیے اور بے آواز ٹرانسپورٹ کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ بلاشبہ سواری کا انتظام ہونا چاہیے۔ اس کیلئے انتظامیہ کو صحیح فیصلے کرنے چاہئیں۔
غرض شور وغل انسانی صحت کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ اس خطرے کو ہر انسان کم اور کم تر کر سکتا ہے یہ شرط ہے کہ وہ فیصلہ کر لے کہ اس کے کام و عمل سے کم از کم آواز پیدا ہوگی۔
0 تبصرہ جات:
Post a Comment